جینڈر سٹڈیز کے پروفیسر ہیں‘ یہ ادب‘ تھیٹر‘ اداکاری‘ ڈرامہ نگاری اور صحافت سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں‘ یہ نظمیں بھی لکھتے ہیں‘ ان کی ایک متنازعہ نظم ”میں بھی کافر تو بھی کافر“ سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئی‘ یہ 6 جنوری کی رات بنی گالہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ تھے‘ یہ گھر جانے کےلئے نکلے اور غائب ہو گئے‘ اہلیہ نے دس بجے فون کیا ‘ سلمان حیدر نے فون نہ اٹھایا‘ اہلیہ کو بعد ازاں سلمان حیدر کے نمبر سے ایس ایم ایس موصول ہوا
”میری گاڑی کرال چوک میں کھڑی ہے‘ آپ گاڑی وہاں سے منگوا لیں“ گاڑی اگلے دن کورنگ ٹاﺅن سے ملی‘ خاندان نے تھانہ لوئی بھیر میں اغواءکا پرچہ درج کرا دیا۔سلمان حیدر ان پانچ مسنگ پرسنز میں شامل ہیں جنہیں 4 سے 7جنوری کے درمیان اغواءکیا گیا‘ عاصم سعید اور وقاض گورایا کو 4 جنوری کو لاہور سے اٹھایاگیا‘ عاصم سعید سنگا پور سے لاہور پہنچاتھا جبکہ وقاص گورایا ہالینڈ میں رہتا تھا‘ یہ دونوں چار جنوری کو لاہور سے غائب ہو گئے‘ احمد رضا نصیر اور ثمر عباس 7 جنوری کو اٹھا لئے گئے‘ رضا نصیر ننکانہ صاحب میں اپنی دکان پر بیٹھا تھا‘ یہ وہاں سے اغواءکر لیا گیا‘ ثمر عباس کراچی کا رہائشی تھا‘ یہ کاروبار کے سلسلے میں اسلام آباد آیا اور غائب ہو گیا‘ یہ لوگ اگر عام حالات میں غائب ہو تے تو شاید یہ بڑی خبر نہ بنتے لیکن یہ پانچوں حضرات ایک ہی کیٹگری سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ بلاگرز ہیں اور یہ سوشل میڈیا پر ایک ہی قسم کا مواد پھیلاتے تھے‘ سلمان حیدر مبینہ طور پر فیس بک کے دو متنازعہ پیجز کے ایڈمن تھے ‘ایک پیج پر طویل عرصے سے مذہب کا مذاق اڑایا جا رہا تھا ‘ مقدس ہستیوں کے بارے میں توہین آمیز فقرے بھی لکھے جاتے تھے جبکہ دوسرے پیج پر پاک فوج کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا تھا‘ عاصم سعید اور وقاص گورایا بھی فیس بک کا ایک