حضرت بہاالدّین زکریا ملتانیؒ کو جب ان کے شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ نے نہایت قلیل مدت میں اپنا خرقہ، مصلیٰ اور دیگر روحانی فیوض سے نوازاتو شیخ کے دیگر مریدین حیران رہ گئے۔ شیخ کی موجودگی میں تو کسی کو لب کشائی کی جراــت نہ ھو سکی مگر پسِ پردہ وہ ایک دوسرے سے شکایتی لہجے میں کہنے لگے:’’کیسے حیرت کا مقام ھے کہ ھم لوگ برسوں سے حضرت شیخ کے آستانے پر دستِ طلب دراز کئے ھوئے کھڑے ھیں مگر ھمارے ھاتھ اور دامن ابھی تک خالی ھیں،
مگر اس درویش کو دیکھو کہ اچانک آیا اور ایک ھی رات میں معرفت کے خزانوں کا مالک بن گیا۔ اس نے کوئی ریاضت کی اور نہ شیخ نے اسے کسی مشقت میں ڈالا، پھر سب کچھ کیسے ھو گیا؟‘‘ بظاہر حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ کے مریدوں کا لہجہ محتاط تھا مگر درپردہ سب کے سب یہی کہنا چاھتے تھے کہ حضرت شیخ بہاالدین زکریا ملتانیؒ خرقۂ خلافت کے حقدار نہیں تھے اور پیر و مرشد کی یہ عنایت منصفانہ نہیں ھے۔
صبح حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ کو اس واقعے کی اطلاع ھوئی توآپ ؒ نے تمام مریدانِ خاص کو اپنے حجرۂ مبارک میں طلب کیا۔ پھر ایک خادم کو چند کبوتر لانے کا حکم دیا۔ جب کبوتر آ گئے تو حضرت شیخ ؒ نے وہ سارے پرندے اپنے مریدوں میں تقسیم کر دئیے اور خرقۂ خلافت کے دعوے داروں کو مخاطب کرتے ھوئے فرمایا: ’’پہلے تم لوگ ان کبوتروں کو ایسی جگہ ذبح کرو جہاں تمہیں دیکھنے والا کوئی نہ ھو۔ پھر میرے پاس آئو۔ ‘‘ تمام مرید کبوتر لے کر چلے گئے۔ ان مریدوں میں حضرت بہاالدین زکریا ملتانیؒ بھی شامل تھے۔ کچھ دیر بعد تمام مریدوں نے گوشہؑ تنہائی تلاش کر کے پیرو مرشد کی ھدایت کے مطابق کبوتروں کو ذبح کر ڈالا اور حضرت شیخ ؒ کی خدمت میں حاضر ھو گئے، تاھم زکریا ملتانیؒ نہ آئے۔ خدام شدید حیرت کے عالم میں ایک دوسرے کا منہ دیکھ رھے تھے اور ان کی آنکھیں حضرت بہاالدین زکریا ملتانیؒ کو ڈھونڈ رھی تھیں جو ابھی تک پیرو مرشد کی خدمت میں حاضر نہیں ھوئے تھے۔
حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردیؒ کو بھی اپنے خلیفۂ اکبر کا انتظار تھا۔ آخر حضرت بہائو الدین زکریا ملتانیؒ اس حالت میں تشریف لائے کہ آپؒ کے ھاتھ میں زندہ کبوتر موجود تھا۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ کے تمام مرید بہت خوش ھوئے اور دل ھی دل میں کہنے لگے: ’’یہ مرید جسے خلافتِ کبریٰ حاصل ھو گئی ھے، کوئی نادان شخص ھے کہ کبوتر کو ذبح کئے بغیر چلا آیا۔ اب یہ پیرو مرشد کے غضب سے محفوظ نہیں رھے گا اور جو دولتِ عظمیٰ اسے کسی مشقت کے بغیر راتوں رات حاصل ھو گئی ھے، یکایک سلب ھو جائے گی۔‘‘
ابھی حضرت شہاب الدین سہروردی ؒ کے مریدانِ خاص یہ سوچ ھی رھے تھے کہ حضرت شیخؒؒ ان سے مخاطب ھوئے: ’’تم لوگوں نے میری ھدایت کے مطابق ان پرندوں کو ذبح کیا ھے؟‘‘ ’’شیخ محترم ! اس میں کیا شک ھے؟‘‘ تمام مریدانِ خاص نے بیک زبان عرض کیا:’’ھم تو پیرو مرشد کی نافرمانی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔‘‘ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ نے اپنے مریدانِ خا ص کا جواب سنا اور پھر آپؒ حضرت بہاالدین زکریا ملتانیؒ سے مخاطب ھوئے۔ ’’بہاالدین! تم نے اس کبوتر کو ذبح کیو ں نہیں کیا؟‘‘
’’سیدّی! اس حقیر و عاجز کو کوئی گوشۂ تنہائی نہ مل سکا۔ پھر یہ غلام کس طرح پیر و مرشد کے حکم پر عمل پیرا ھوتا؟‘‘ حضرت بہاالدین زکریا ملتانیؒ نے نہایت عاجزانہ لہجے میں عرض کیا۔ ’’اور تم بہت دیر سے بھی آئے۔‘‘شیخؒ کے سوال کے جواب میں حضرت بہائوالدین زکریا ملتانیؒ نے عرض کیا: ’’اگر یہ غلام ساری زندگی جستجو میں گزار کے آتا، تب بھی اس عاجز کا یہی جواب ھوتا۔ پوری کائنات میں کہیں کوئی گوشۂ تنہائی موجود نہیں ھے۔ یہ حقیر جہاں بھی گیا، حق تعالیٰ کو حاضر و ناظر پایا۔‘‘
’’تم نے سچ کہا‘ بہاالدین! ‘‘ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ کا لہجہ نہایت پُرجوش تھا۔ پھر آپؒ نے اپنے مریدانِ خاص کی طرف دیکھ کر فرمایا:’’اور تم لوگوں کو اتنی جلد گوشۂ تنہائی میسر آ گیا؟‘‘ مریدانِ خاص کی گردنیں ندامت سے جھک گئیں۔ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ نے دوبارہ اپنے مریدوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا:’’تم سب لوگ جنگل میں چلے جائو اور اپنے اپنے حصے کی گھاس کاٹ کر لے آئو۔‘‘اب کی بار مریدانِ خاص اس راز کو سمجھ گئے تھے کہ جس طرح کبوتر کا ذبح کرنا ایک امتحان تھا،
اسی طرح جنگل سے گھاس لانا بھی ایک آزمائش ھے۔ مگر کسی کی سمجھ میں نہیں آ رھا تھا کہ حکمِ شیخ میں کون سا نکتہ پوشیدہ ھے؟ الغرض جب سلسلۂ سہروردیہ کے تمام درویش جنگل سے واپس آئے تو ان کے ھاتھوں میں سرسبز گھاس کے گٹھ تھے۔ اس کے برعکس حضر ت شیخ بہاالدین زکریا ملتانیؒ کے پاس سوکھی گھاس موجود تھی۔ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ نے اپنے دوسرے مریدوں سے پوچھا:’’تم یہ ھری بھری گھاس کیوں لائے؟‘‘
’’سر سبز گھاس نظروں کو اچھی لگتی ھے، اس لئے ھم شیخ کے حضور بھی خوب صورت اور پسندیدہ چیز لے آئے۔‘‘ تمام مریدوں کا کم و بیش ایک ھی جواب تھا۔ ’’اور بہاالدّین ! تم یہ خشک گھاس کس لئے اُٹھا لائے؟‘‘ آخر میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ نے اپنے خلیفۂ اکبر سے دریافت کیا:’’سیدّی! جنگل میں سبز گھاس کی تو کمی نہیں تھی مگر میں جہاں بھی گیا، اسے یادِ الٰہی میں مصروف پایا۔ ‘‘
حضرت شیخ بہائوالدین زکریا ملتانیؒ نے عرض کیا: ’’مجھے اچھا نہیں لگا کہ اسے یادِ الٰہی سے محروم کردوں۔ خشک گھاس چوں کہ ذکرِ الٰہی سے فارغ تھی، اس لئے اسے کاٹ کر پیرو مرشد کی خدمتِ عالیہ میں پیش کر دیا۔‘‘ اپنے خلیفۂ اکبر کا جواب سن کر حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی ؒ نے تبسم فرمایا اور پھر دوسرے مریدوں سے مخاطب ھوئے:
’’اب تم لوگوں کی سمجھ میں آیا کہ بہاالدّین کو خلافتِ کبریٰ کیوں دی گئی ھے؟‘‘تمام مرید حیران و پریشان تھے۔ اُنہیں حضرت شیخ بہاالدّین زکریا ملتانیؒ کے ذھن کی رسائی اور نکتہ آفرینی کا اندازہ تو ھو گیا تھا مگر وہ پیرو مرشد کے سوال کا جواب دینے سے قاصر تھے۔ آخر کچھ دیر بعد حضرت شیخ شہاب الدین سہر وردیؒ نے معرفت کے اس راز کی عقدہ کشائی کرتے ھوئے فرمایا:
’’مرید پر لازم ھے کہ وہ مرشد کے فیصلے سے اختلاف نہ کرے اور اپنے دل و دماغ کو اندیشوں کے غبار سے آلودہ نہ ھونے دے۔ دوستو! تم سب گیلی لکڑی کی مانند ھو جس پر آگ جلدی اثر نہیں کرتی۔ اسے جلانے کے لئے شدید محنت درکار ھوتی ھے۔ بہاالدّین ملتانی، سوکھی لکڑی کی طرح تھا کہ ایک ہی پھونک میں بھڑک اُٹھا اور عشقِ الٰہی کی آگ نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔‘‘
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ کے وہ تمام مرید جو پیر و مرشد کے فیصلے پر معترض تھے اور حضرت بہاالدّین زکریا ملتانیؒ کو خلافتِ کبریٰ کا مستخق نہیں سمجھتے تھے، نادم و شرمسار نظر آنے لگے۔ ’’حق بہ حق دار رسید۔‘‘ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ نے اپنے مریدوں کو مخاطب کرتے ھوئے فرمایا۔ ’’ دنیا میں کوئی کام توفیقِ الٰہی کے بغیر نہیں ھوتا اور مشیت الٰہی یہ ھے کہ بہاالدّین زکریا ملتانیؒ میرا خلیفۂ اکبر ھے۔
جو اس کی طرف سے اپنے دل کو صاف رکھے گا، اسے دونوں جہانوں کی سعادتیں اور برکتیں حاصل ھوں گی۔ جو اپنے دل و دماغ کو شک اور حسد کے غبار سے آلودہ کرے گا، وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑے گا، صرف اپنی دنیا اور آخرت سے ایک خطرناک کھیل کھیلے گا۔‘‘ یہ مریدوں کے لئے تنبیہہ بھی تھی اور ھدایت بھی۔ آخر انسانی نفس پر چھائی ہوئی کدورت ختم ھو گئی اور ان سب کو اعتراف کرنا پڑا کہ مرشد کی نظر، نظر ھوتی ھے۔ اس نظر کی گہرائی تک عام مرید نہیں پہنچ سکتا۔