یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب سعودی عرب میں آج کی طرح دولت کی ریل پیل نہ تھی اور اس ملک کی معیشت کا دارو مدار زیادہ ترحج کے موقع پر آنے والے حاجیوں سے ہونے والی آمدنی پر تھا آبادی بہت غریب تھی اور بڑی مشکل سے گزارہ ہوتا تھا۔ مولانا ظفر احمد عثمانی رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں اس زمانے میں حج کے بعد مدینہ منورہ گیا۔ ہم لوگوں نے کھانا کھانے کے بعد دستر خوان کو لے کر ایک ڈھیر پر جھاڑ دیا تاکہ روٹی کے بچے کھچے ٹکڑوں اور ہڈیوں کو جانور کھا جائیں۔
تھوڑی دیر کے بعد جب میں اپنے کمرے سے باہر نکلا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک خوبصورت آٹھ نو سال کا بچہ ان ٹکڑوں کو چن چن کر کھا رہا ہے مجھے سخت افسوس ہوا بچے کو ساتھ لے کر قیام گاہ میں آیا اور اسے پیٹ بھر کے کھانا کھلایا۔ کیونکہ میں ایسی ہستی کے شہر میں تھا جو غریبوں کو والی اور غلاموں کا مولا تھا۔ میرے اس برتاؤ کو دیکھ کر بچہ بے حد متاثر ہوا میں نے چلتے وقت اس سے کہا کہ بیٹے تمہارے والد کیا کرتے ہیں اس نے کہا میں یتیم ہوں۔میں نے کہا، بیٹے! تم میرے ساتھ ہندوستان چلو گے؟ وہاں میں تم کو اچھے اچھے کھانے کھلاؤں گا عمدہ عمدہ کپڑے پہناؤں گا۔ اپنے مدرسے میں تمہیں تعلیم دوں گا جب تم عالم فاضل ہو جاؤ گے و میں خود تم کو یہاں لے کر آؤں گا اور تمہیں تمہاری والدہ کے سپرد کر دوں گا۔ تم جاؤ اپنی والدہ سے اجازت لے کر آؤ۔ لڑکا بہت خوش ہوا اور اچھلتا کودتا اپنی والدہ کے پاس گیا۔ وہ بیچاری بیوہ دوسرے بچوں کے اخراجات سے پہلے ہی پریشان تھی اس نے فوراً اجازت دے دی۔بچہ فوراً آیا اور مولانا کو بتایا کہ میں آپ کے ساتھ جاؤں گا میری ماں نے اجازت دے دی ہے پھر پوچھنے لگا کہ آپ کے شہر میں یہ چھولے ملتے ہیں جو یہاں ملتے ہیں۔ مولانا عثمانی نے بتایا بیٹے! یہ ساری چیزیں وافر مقدار میں تمہیں ملیں گی مولانا کا بیان ہے کہ میری انگلی پکڑے پکڑے مسجد نبوی (ﷺ) وہ میرے ساتھ آیا اور ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا سرکار ﷺ کے روضے کو دیکھا اور مسجد کے دروازے کو اور دریافت کیا بابا! یہ دروازہ اور یہ روضہ بھی وہاں ملے گا؟
میں نے اس سے کہا کہ بیٹا اگر وہاں مل جاتا تو میں یہاں کیوں آتا؟ لڑکے کے چہرے کا رنگ بدل گیا میری انگلی چھوڑ دی بابا! تم جاؤ اگر یہ نہیں ملے گا تو میں ہرگز ہرگز اس دروازے کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گا بھوکا رہوں گا پیاسا رہوں گا اس دروازے کو دیکھ کر میں اپنی بھوک اور پیاس اس طرح بجھاتا رہوں گا جس طرح آج تک بجھاتا رہا ہوں یہ کہہ کہ بچہ رونے لگا اور اس کے عشق کو دیکھ کر میں بھی رونے لگا۔