منگل‬‮ ، 30 ستمبر‬‮ 2025 

گستاخ رسول ﷺ کا انجام

datetime 21  دسمبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجاہدین کی صف میں کھڑے ہونے کے بعد جب میں نے دائیں بائیں جانب نظر کی تو کسی قدر مایوس ہوا کہ میری دونوں جانب انصار کے دو کم عمر بچے کھڑے تھے میں سوچنے لگا کہ ان بچوں سے کیا بنے گا؟ تگڑے جوان ہوتے تو وہ اس معرکے میں میرے کام آتے یہ بچے میرے کس کام کے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ فرماتے ہیں کہ ابھی میں انہی خیالات میں کھویا ہوا تھا کہ جنگ شروع ہو گئی۔

پہلی اور آخری فیصلہ کن جنگ۔ جسے تاریخ میں غزوہ بدر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایسی جنگ جس میں نہتے لوگوں کا قریش کے سور ماؤں سے مقابلہ تھا۔ ایک طرف بے سرو سامانی دوسری طرف تمام مادی ذرائع و سائل۔ ایک طرف تین سو تیرہ فاقہ کش و گلیم پوش لوگ اور دوسری طرف ایسے ایسے صاحب ثروت کہ ان کا ایک ایک آدمی ایک ہزار کے لشکر کا تنہا میزبان بن سکتا تھا۔ ایک جماعت کو اپنی تعداد و سامان رسد اسلحہ اور آزمودہ کاری پر ناز تھا۔ ہر فرد طاقت کے نشے میں چور اکڑ اکڑ کر چل رہا تھا اور دوسری جماعت کا سارا سرمایہ اور سارا اثاثہ صرف ایمان و یقین تھا۔ سیدنا علی مرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ وجہہ کے پاؤں دہکتے ہوئے ریگستان میں چلتے وقت جلنے لگے کہ پاؤں میں جوتے نہیں تھے۔ نبی ﷺ سے شکایت کی تو جواب ملا علی! جوتے نہیں تو کیا ہوا؟ پاؤں میں چیتھڑے لپیٹ لو۔ اور شیر خدا نے تعمیل ارشاد کی۔جنگ زور و شور سے جاری تھی کہ جناب عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے ان دو نو عمر انصاری بچوں نے سوال کیا چچا جان! آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں مگر تم کیوں پوچھتے ہو؟ بچوں کی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے۔کہا! ہم نے سنا کہ وہ ہمارے سرکار ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرتا ہے خدائے واحد ولا یزال کی قسم اگر آج وہ ہمیں مل گیا

تو یا وہ نہیں یا ہم نہیں۔ اتفاقاً گھوڑے پر سوار اور لوہے میں غرق ابوجہل لشکر کفار میں دوڑ بھاگ کرتا ہوا نظر آ گیا میں نے بچوں سے کہا۔ وہ ہے ابوجہل۔ اتنا سننا تھا کہ دونوں بچے باز کی طرح اس پر جھپٹ پڑے ایک نے گھوڑے پر حملہ کیا اور ابوجہل گھوڑے سے گر پڑا اور دوسرے نے تلوار کا ایسا وار اس کی ٹانگ پر کیا کہ پھر ابوجہل اٹھ نہ سکا۔ آخر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جا کر اس کا سر تن سے جدا کیا۔

ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے یہ حال دیکھا تو پلٹ کر آیا اور ایک لڑکے کا ہاتھ کاٹ دیا۔ ہاتھ کٹ گیا مگر دونوں شہ باز معاذ بن عمر اور معوذ بن عفرا رضی اللہ عنہما خوشی سے سرشار تھے کہ انہوں نے ایک سخت گستاخ زبان کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا ہے اسلامی تاریخ آج ایسے ہی ستاروں پر کمند ڈالنے والے جوانوں کی منتظر ہے۔

 

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



سات مئی


امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وزیر خارجہ اسحاق…

مئی 2025ء

بھارت نے 26فروری2019ء کی صبح ساڑھے تین بجے بالاکوٹ…

1984ء

یہ کہانی سات جون 1981ء کو شروع ہوئی لیکن ہمیں اسے…

احسن اقبال کر سکتے ہیں

ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…