بیجنگ(این این آئی)چینی حکام نے کہا ہے کہ وہ ترکی سمیت کسی بھی نیٹو رکن ریاست کی چین اور روس کے مشترکہ سکیورٹی بلاک میں شمولیت پر غور کرنے کو تیار ہیں۔ ترک صدر ایردوآن نے حال ہی میں کہا تھا کہ وہ چین اور روس سے رجوع کرنا چاہتے ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق چینی حکومت کے ایک ترجمان نے جاری بیان میں کہاکہ وہ ترکی سمیت کسی بھی نیٹو رکن ریاست کی چین اور روس کے مشترکہ سکیورٹی بلاک میں شمولیت پر غور کرنے کو تیار ہیں۔ ترک صدر ایردوآن نے حال ہی میں کہا تھا کہ وہ چین اور روس سے رجوع کرنا چاہتے ہیں۔ادھرایک علیحدہ بیان میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ترکی کے
ساتھ سکیورٹی بلاک میں شمولیت کے لیے پہلے ہی سے مذاکرات جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی چین کے ساتھ معاونت کرتا رہا ہے اور چینی حکومت اس بات کو سراہتی ہے۔2001میں چین، روس اور چار وسطی ایشیائی ممالک نے شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن قائم کی تھی جس کا مقصد افغانستان سے شدت پسند اور منشیات کی اس خطے میں آمد کو روکنا بتایا گیا تھا۔ اب یہ بلاک پہلے سے زیادہ طاقت ور ہو چکا ہے اور اس کی اہمیت میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔چین نے سلامتی کے بلاک کے علاوہ معاشی بلاک بھی تشکیل دے رکھا ہے۔ ان دونوں بلاکس کا مقصد دنیا پر مغربی ممالک کے معاشی اور سکیورٹی سے متعلق امور پر تسلط کو کم کر کے چھوٹے ممالک کو ایک متبادل فراہم کرنا بتایا گیا ہے۔ اسی ضمن میں چند روز قبل ترک صدر رچب طیب ایردوآن نے کہا تھا کہ وہ مغربی دفاعی اتحاد سے نالاں ہیں، اور وہ اس کے بجائے چین اور روس سے رجوع کر سکتے ہیں۔ ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے تاہم صدر ایردوآن یورپ اور امریکا سے ناخوش ہیں۔
ان کی ناخوشی کی وجوہات میں سے چند یورپ کے ساتھ جاری مہاجرین سے متعلق تنازعہ ہے اور ساتھ ہی امریکا میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گلن بھی ہیں جن پر ترک حکومت الزام عائد کرتی ہے کہ وہ جولائی میں ہونے والی ایک ناکام فوجی بغاوت کے معاون تھے۔ انقرہ کا واشنگٹن سے مطالبہ ہے کہ گولن کو ترکی کے حوالے کیا جائے۔جرمنی سمیت بیشتر یورپی ممالک ترک حکومت پر ناکام بغاوت کو بنیاد بنا کر مخالفین پر وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ تاہم ترکی اور یورپی یونین کے درمیان مہاجرین سے متعلق ایک معاہدے کے بعد یورپی یونین ترکی سے قطع تعلق بھی نہیں کر سکتا۔ مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ممالک، بالخصوص شام اور عراق سے لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین یورپ پہنچ چکے ہیں اور برسلز میں حکام اس بہاؤ کو روکنے کے لیے انقرہ کے کردار کو کلیدی سمجھتے ہیں۔