ایک عورت کسی بادشاہ ک محل میں کام کرتی تھی ایک دفع ایسا ھوا کہ وہ بیمار ھو گیئ اور محل میں نا جا ساکیاس کا ایک جوان بیٹا تھا۔اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ مین بیمار ھوں تو کچھ دنوں کے لئے تو جا اور محل میں صفائ کر کھیں بادشا ھم سے ناراض نا ھو جاےماں کی بات مان کر بیٹا محل میں چلا گیااتفاق سے وہ لڑکا وہہاں صفائ کر رھا تھا ک اچانک بادشاھ کی بیٹی ادھر سے گزریاس جوان کی نظر جب حسین و جمیل شھزادی پہ پڑی تو اس کا دل بے اختیار تڑپ گیا اور شہزادی ک عشق میں مبتلا ھو گیاشام کو گھر واپس ایا مگر دل کو قرار نا ملارات جاگ کر صبح ک انتظار میں گزاری دوسرے دن جب محل میں گیا تو جسجتجو مین تھا ک کسی طرح محبوب کی زیارت ھو جاے مگر وہ اسے کہیں نظر نا آئاسی طرح چار دن گزر گئے۔ادھر اس کی ماں کی صحت تھیک ھو گئ۔تو اس نے کہا کہ بیٹا میں اب تھیک ھوں اج کہ باد تم بادشاہ ک محل میں نا جاناعشق کی جو چوٹ اسے لگی تھی اسے ایک پل قرار نا انے دیتی رفتہ رفتہ اس نے کھانا پیینا بھی چھوڑ دیا اور اتنا بیمار ھوا ک چارپائ پہ آ گیا
ماں نے اسے پوچھا کہ تجھے کیا گیا ھے جس نے تری حالت یہ کر دی۔اس جوان نے ہمت کر کہ ماں کو سب قصہ سنا دیا۔ماں بیٹے کی بات سن کہ پریشان ھو گئ اور اسے سمجھا نے لگی ک بیٹا تو اپنی حثیت سے کہیں بڑی خواھش کر بیٹھا ھے اسے بھول جا کہاں بادشاہ کی بیٹی اور کہاں ھم غریب لوگاس نے کہا ماں میں سب جانتا ہون مگر میرے بس نئ ک اسے بھلا سکوں۔اس کا عشق سچا تھا اس لئیے ادھر شہزادی کے دل میں بھی کچھ جستجو پیدا ھوئ دوسرے دن شہزادی نے لڑکے کی ماں سے پوچھ لیا ک جب تم بیمار تھی تو اک جوان جو محل کی صفائ کے لئے آتا تھا وہ کوون تھاماں نے اسے بتایا ک وہ میرا بیٹا تھا اور اب وہ بہت بیمار ھے اور بستر مرگ پی ھےشہزادی نے پوچھ لیا کہ کیوںتو ماں نے کہا کہ اگر جان کی امان ھو تو سچ بتاوں۔شہزادی نے کہا بتا کیا ھوا اسے یہ قصہ سنا۔ماں شہزادی کو سب سچ بتایا وہ اک نظر تجھے دیکھ ک تیرا عاشق ھوا اس کی خواھش تھی ک دوبارا تجھے دےکھے مگر دیکھ نئ سکا اور اب موت کے قریب ھے
شہزادی ساری بات نی اور کیا کہ۔میں چاھوں بھی تو اسے مل نئ سکتی ھاں اتنا کر سکتی ھوں کہ اسے جا کے کہہ اپنا بھیس بدل اور شھر کے دروازے پے جا ک بیٹھ جا کسی سے بات نہ کر کوئ کھانے کو دے تو کھا لے ورنہ بھوکا پیاسا بیٹھا رہ کسی سے کچھ طلب نہ کرلوگ سمجھیں گے کہ کوئ فقیر ھے اللہ ولا ھے کچھ دنوں میں جب اس کا چرچا ھو جاے گا لوگ اس کی زیارت کو جائیں گے تو میں بھی اپنے باپ سے کھون گی ک شھر ک باھر کوئ فقیر ایا ھے مجھے اس کی زیارت کہ لئیے جانے دیں اس طرح وہ مجھے اک بار دیکھ لے گا اور شائد قرار مل جاے اور تیرا بیٹا ٹھیک ھو جاے۔میں بس یہ کر سکتی ھوں اور کچھ میرے بھی بس میں نہیاس کی ماں نے ایسا ھی کیا اس کے بیٹے نے فقیروں کا بھیس بدلا اور شھر ک باھر جا کہ بیٹھ گیا
چند دنوں میں شھر میں چرچا ھو گیا کہ کوئ اللہ کا بندہ شھر سے باھر ایا بیٹھا ھہ لوگ اس کی زیارت کو آنے لگے ۔جب محل تک خبر پہچی تو شہزادی نے بھی باپ سے ارض کر دی کہ کوئ اللہ والآ ھے مجھے اس کی زیارت کو جانے کی اجازت دیں۔بادشاہ نے یہ سن کر خوشی سے اجازت دے دی کہ کل صبح چلی جاناادھر شھزادی کو اجازت ملی اور ادھر اس عاشق ک دل میں یہ خیال گزرا ک میں نے تو جھوٹا بھیس بنایا ھے اللہ والوں کا اور اتنی عزت اور اتنی نعمتیں مل رھی ھیں ک لوگ ادب میں میرے سامنے کھڑے ھیںتو جو لوگ سچ میں اللہ کہ فقیر ھو جاتے ھیں ان کو کیا مقام ملتا ھو گا۔بس اس نے یہ سوچا اور اس رات دل سے اللہ کی عبادت کی اللہ پاک نے اس کی انکھوں کو اپنی معرفت ک نور سے سیراب کر دیا صبح تک اس کی دنیا بدل چکی تھی
شھزادی جب صبح اس کی زیارت کو پہچی اس کہ سامنے آ ک بیٹھ گئ تو اس نے نگاہ اٹھا کہ بھی نا دیکھاوہ بہت حیران ھو گیئ اور اس سے پوچھا ک تو دیکھتا کیون نہیںاس جوان نے کہا کہ تجھے کیا دیکھوں تیرا حسن نجاستوں سے بھرا ھے۔میرے سامنے جنت کی وہ حوریں بیٹھی ھیں اس دنیا میں جن کی کوئ مثال نہی جو نجاستوں اور کثافتون سے پاک ھیں ان کا حسن دنیا کو روشن کر رھا ھے،،،خب شھزادی نے یہ باتیں سنی تو اگے بڑھ کر اس کے منہہ پے تماچا دے مارامیری وجہ سے تو تو یہاں تک پوہچا جو تجہے نظر آ رھا ھے اب مجھے بھی دکھا
جوان نے کھا اگر تجھے بھی ایسی زندگی چاھیئے تو دنیا چھوڑ ک اور میرے ساتھ بیٹھ جااس شھزادی نے بھی دنیا ترک کیوہ عارف بن گیا وہ عارفہ بن گئعشق حقیقی کی حقدار بس ذات خدا ھے