ایک بادشاہ ہر وقت اپنے سر کو ڈھانپ کے رکھتا۔ اُسے کبھی کسی نے ننگے سر نہیں دیکھا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اِس راز کو جاننے کی کوشش کی لیکن بادشاہ ہر مرتبہ کمال مہارت سے بات کا رُخ موڑ کر جواب دینے سے بچ جاتا۔ایک روز اُسکے وزیرِ خاص نے بادشاہ سے اِس راز کو جاننے کی ٹھان لی، حسب سابق بادشاہ نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح وزیر کا دھیان اِدھر اُدھر ہو جائے،
لیکن اُس نے بھی جاننے کا مصمم ارادہ کر رکھا تھا، آخر بادشاہ نے وزیر کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ لیکن اُسے ایک شرط پر بتانے کی حامی بھری کہ وہ آگے کسی کو نہیں بتائے گا۔ اور ساتھ ہی کہا کہ اگر اُس نے شرط کی خلاف ورزی کی تو اُسے سخت سزا بھگتنا ہو گی۔بادشاہ نے بتایا کہ، “اُس کے سر پر ایک سینگ ہے، اِسی لیے وہ اپنے سر کو ہمیشہ ڈھانپ کے رکھتا ہے۔۔۔!” اِس بات کو کچھ دِن ہی ہوئے تھے کہ پورے شہر میں یہ خبر پھیل گئی کہ بادشاہ کے سر پر سینگ ہے۔ بادشاہ کو بڑا غصہ آیا۔ اُس نے اپنے اُس وزیرِ خاص کو طلب کیا اور شرط کی خلاف ورزی کی پاداش میں شاہی حکم صادر کیا کہ اُسے سخت سے سخت سزا دی جائے۔وزیر بہت سمجھدار تھا، وہ جھٹ سے بولا، “بادشاہ سلامت! جب آپ بادشاہ ہو کر خود اپنے ہی راز کو نہیں چھپا سکے تو پھر آپ مجھ سے یا کسی اور سے کیسے یہ اُمید کر سکتے ہیں کہ وہ آپکے راز کو چھپا کر رکھے۔ لہٰذا جتنی سزا کا حقدار میں ہوں اُتنی آپکو بھی ملنی اہیے۔۔۔!” میرے عزیز دوستو! زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اور کمان سے نکلا ہوا تیر جب نکلتے ہیں تو دو کام ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیں آ سکتے۔ چاہے لاکھ پچھتاوے کے ہاتھ ملو۔ اور دوسرا یہ کہ وہ پھر جہاں جہاں سے گزرتے ہیں اپنی شدت اور قوت کے مطابق زخم لگاتے جاتے ہیں۔ جس کا دوش ہم اپنے علاوہ کسی اور کو نہیں دے سکتے۔اِس لیے کہتے ہیں کہ جب تک الفاظ آپکے اندر رہتے ہیں، وہ آپکے غلام ہوتے ہیں۔ اور جیسے ہی وہ ادا ہو جاتے ہیں، پھر آپ اُنکے غلام بن جاتے ہو۔ اگلی پوری زندگی آپکو اپنے عمل اور کردار سے اپنے کہے ہوئے الفاظ کی پاسداری کرنی پڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و مددگار ہو۔۔۔آمین