اسلام آباد(آئی این پی ) سینیٹ قائمہ کمیٹی منصوبہ بندی ،ترقی و اصلاحا ت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت 38منصوبے شروع کئے جائینگے، سی پیک کی سیکو رٹی کے لئے 9000فوجی مستقل اور 6000عارضی سویلین ملازمین تعینات کئے جا رہے ہیں،سی پیک کی کل لاگت کا1 فیصد سیکورٹی مد میں رکھا جا رہا ہے،کاسا 1000منصوبہ کا پی سی ون منظور ہو گیاہے اور اب ایکنیک میں بھیجا جائیگا ،گوادر کے 50بستروں کے موجود ہسپتال میں 100بستروں کا اضافہ کرنے کیلئے 5ارب کی رقم رکھی گئی ہے،ما نسہرہ ائر پورٹ کیلئے 950ملین ،ہزارہ یونیورسٹی کے ایڈمن بلاکوں کی تعمیر کیلئے 562ملین،سڑکوں کیلئے 15ملین ،مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے490ملین ، واٹر سپلائی سیکموں کیلئے 5ملین اور چھوٹی ڈیمو ں کیلئے 450ملین رکھے گئے ہیں،سینیٹر عثما ن کا کڑ نے کہا حکومت کی ترجیح میں مغربی روٹ کہیں نہیں،سیکورٹی کے اداروں میں بھی بلوچستان کے لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں،سی پیک کا مشرقی ریلوے روٹ مغربی روٹ سے 900 کلومیٹر لمبا ہے،پھر بھی حکومتی ترجیح مشرقی روٹ کو ہے،مغربی روٹ کیلئے ڈی آئی خان سے ڑوب کا خرچہ80کروڑ لیکن صرف 90 ملین رکھے گئے ہیں ،مو جودہ رفتا ر سے اس کی تکمیل کیلئے 90سال درکار ہونگے۔ سینیٹ قائمہ کمیٹی منصوبہ بندی ،ترقی و اصلاحا ت کے چیئرمین سینیٹر کرنل ریٹائر طاہر حسین مشہدی کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس میں پاک چین اقتصادی راہداری کے جاری منصوبوں اور بجٹ2016۔17میں ان منصوبوں کیلئے پی ایس ڈی پی میں رکھی گئی رقوم ،کاسا 1000منصوبہ جات،وزیر اعظم پاکستان کے داماد کیپٹن ریٹائر محمد صفدر کے حلقہ مانسہرہ میں1 ارب15کروڑ روپے جاری ہونے والی رقم کے معاملات ایجنڈے میں زیر بحث آئے۔چیئرمین کمیٹی کرنل طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ پاک چین ا قتصادی راہداری پاکستان اور چین دونوں کی مضبوط دوستی اور رشتوں کی مثال ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری کو بلا تفریق ملک بھر کے تمام علاقوں کے شہریوں کو برابر سہولیات فراہم کرنے کی مثال بنایا جانا چاہئے اور پاک چین اقتصادی راہداری کے رستوں میں صنعتی زونوں کے علاوہ عوامی سہولیات کے منصوبے بھی ذیادہ سے ذیادہ پاکستان اور قوم کیلئے فائدہ مند ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہاکہ عوام سمجھتی ہے کہ چین ہمیں سی پیک کیلئے مفت پیسہ دے رہا ہے۔حکومت اور ادارے عوام کو ہر معاملے کی مکمل وضاحت کریں۔ بلوچستان ، سندھ،خیبر پختون خواہ اور فاٹا میں بھی پاک چین اقتصادی راہداری کے ثمرات پہنچنے چاہئیں اور کہا کہ بد عنوانی کو مکمل طور پر روکا جائے۔پاکستان کمزور ہو رہا ہے سی پیک کو عملی لیکن مساوی اور برابر اقدامات کے ذریعے حقیقی طور پر گیم چینجر بنائیں۔کمیٹی اجلاس میں آگاہ کیا گیا کہ پاک چین اقتصادی راہداری 46ارب ڈالر کا منصوبہ ہے۔یہ رقم مختلف مراحل میں مختلف منصوبوں پر استعمال ہو گی اور سب سے زیادہ سرمایہ کاری توانائی کے منصوبوں پر ہو گی۔پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت 38منصوبے شروع کئے جائینگے۔سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ ڑوب سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے خضدار تک مفت سرکاری شاملاتی زمین موجود ہے۔لیکن حکومت کی ترجیح مغربی روٹ کہیں نہیں جس پر وزارت منصوبہ بندی کے حکام نے آگاہ کیا کہ بلوچستان کی یہ زمین ریاست کی ملکیت ضرور ہے مگر جب حکومت زمین لینے چاہتی ہے تو قبائل مزاحمت کرتے ہیں جس پر ایڈیشنل سیکرٹری بلوچستان نے جواب دیا کہ این ایچ اے نے بلوچستان حکومت کو مغربی روٹ کی زمین خریداری یا بندو بست کیلئے کبھی کچھ نہیں لکھا۔کمیٹی میں پراجیکٹ ڈائریکٹرپاک چین اقتصادی راہداری نے آگاہ کیا کہ سیکورٹی فورس قائم کر دی گئی ہے۔9000فوجی مستقل اور 6000عارضی سویلین ملازمین تعینات کئے جا رہے ہیں۔سی پیک کی کل لاگت کا1 فیصد سیکورٹی مد میں رکھا جا رہا ہے۔سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ فوج میں بلوچستان میں پہلے ہی نمائندگی کم ہے۔ سیکورٹی کے اداروں میں بھی بلوچستان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہو گی۔جس سے سیکورٹی ملازمین کی تعداد میں بھی فائدہ پنجاب کو ہو گا،ریلوے روٹ کے حوالے سے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ مشرقی ریلوے روٹ مغربی روٹ سے900کلو میٹر لمبا ہے پھر بھی حکومتی ترجیح مشرقی روٹ ہے۔قوم کا 20 ارب روپیہ کا نقصان ہو گا۔حکومت نے سی پیک کی بنیاد ہی تعصب پر رکھی ہے۔چیئرمین کمیٹی طاہر مشہدی نے کہا کہ مختصر قابل عمل اور سستے روٹ کی بجائے مہنگے روٹ پر کیوں اخراجات کیے جا رہے ہیں۔اسی وجہ سے اعتراضات اٹھے ہیں جو کو حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ بھارت چاہ بہار سے وسط ایشیا تک پہنچ چکا ہم کوئٹہ ،چمن ،طورخم تک روٹ نہیں بنا سکے۔ وسائل مغربی روٹ پر ہیں ترجیح مشرقی روٹ بنائی جا رہی ہے۔ریلوے حکام نے آگاہ کیا کہ مشرقی روٹ کو ترجیح آبادی کا ستر فیصد اور معاشی سرگرمیاں ہیں۔سینیٹر محسن لغاری نے کہا قدرتی طور پر پاکستان میں موجود سنٹرل روٹ پر ذیادہ توجہ کی ضرورت ہے جس پر کوئی اعتراض بھی نہیں اور پورا ملک کو فائدہ ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری کی سڑکوں ،شاہراہوں او رریلوے نظام کو ملک بھر میں اپ گریڈ کیا جائے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پاکستان کے ریلوے نظام کو اکیسویں صدی کے تحت اور پاک چین اقتصادی راہداری کے مطابق اپ گریڈ کیا جائے تاکہ مستقبل میں بھی دوبارہ لاکھوں کروڑوں اپ گریڈیشن کیلئے خرچ نہ کرنے پڑیں۔کمیٹی اجلاس میں سینیٹر عثمان کاکڑ نے پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے کہا کہ ڑوب مغل کوٹ ،ڑوب سے کچلاک ،کچلاک سے خضدار کے بارے میں ہر اجلاس میں پرانی کہانی چلائی جاتی ہے۔مغربی روٹ کیلئے ڈی آئی خان سے ڑوب کا خرچہ80کروڑ لیکن صرف 90 ملین رکھے گئے ہیں اس طرح تکمیل کیلئے 90سال درکار ہونگے ڑوب سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے خضدار کے درمیان ایک فٹ بھی پہاڑ نہیں لیکن یہاں ترقیاتی کام نہیں کئے جا رہے کمیٹی کو اس بارے میں سٹینڈ لینا چاہئے اور کہا کہ مفت سرکاری شاملاتی زمین کو جلد این ایچ اے حاصل کر لے غیر قانونی آبادیوں کو اٹھانے کیلئے اربوں روپے اداا کرنے پڑینگے اور کہا کہ جہاں سڑک، بجلی، ریلوے، گیس کی سہولیات نہیں ہونگی کیا کوئی پاگل وہاں جا کر سرمایہ کاری کریگا۔گوادر کے حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ 50بستروں کے موجود ہسپتال میں 100بستروں کا اضافہ کرنے کیلئے کام شروع کرایا جائیگا۔5ارب کی رقم رکھ دی گئی ہے۔گرڈ سٹیشن کاڈیزائین مکمل کر لیا گیا ہے سول ورک شروع ہے کام جون2017تک مکمل ہو جائیگا۔220KV کا ایک اور بھی گرڈ سٹیشن بنایا جائیگا۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ مغربی روٹ پر کم توجہ اور کم بجٹ رکھنے کی وجہ سے اعتراض تو ہونگے وفاق سب کو برابری دے۔کاسا 1000منصوبوں کے حوالے سے آگاہ کیا کہ پاکستان ،افغانستان،تاجکستان اور قازقستان پر مشتمل معاہد ہ ہے۔ تاجکستان اور قازقستان بجلی فروخت کرنے والے ملک ہیں تاجکستان سے 1300 میگاواٹ بجلی حاصل کی جائیگی۔300میگا واٹ افغانستان کیلئے ہے۔افغانستان کی ضرورت نہ وہ تو وہ بھی پاکستان استعمال کریگا۔موسم گرما میں ان ممالک کے پاس بجلی زائد ہوتی ہے۔ پی سی ون منظور ہو گی اہے اور ایکنیک میں جائیگا۔وزارت خزانہ نے ضمانت دی ہے کہ دس سال سے رکے ہوئے منسوبے کی بحالی بڑی کامیابی ہے۔سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ تاجکستان کا نورک سسٹم بوسیدہ اور پرانا ہے نئے ڈیمز تیار نہیں۔تاجکستان میں بجلی کا شارٹ فال ہے۔غیر مستحکم افغانستان سے بجلی کیسے لائی جائیگی جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال ،سیکورٹی مسائل موجود ہیں مستقبل میں بھی یہی حالات کی توقع ہے۔ایران سستی بجلی دینے پر تیار ہے ایران سے بجلی کیوں حاصل نہیں کی جا رہی۔سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ بجلی فروخت کرنے والے دونوں ممالک کے درمیان ڈیمز کے تنازعات بھی موجود ہیں۔کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں پاک چین اقتصادی راہداری اور کاسا 1000منصوبوں پر تفصیلی بریفنگ دوبارہ لی جائیگی۔وزیر اعظم کے داماد کیپٹن ریٹائر محمد صدر کے حلقہ مانسہرہ میں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے وزارت منصوبہ بندی کے ایڈوائز نے آگاہ کیا کہ مختلف وزارتوں کی طرف سے وزارت منصوبہ بندی کو ترقیاتی سکیمیں بھجوائی گئیں۔ما نسہرہ ائر پورٹ کیلئے 950ملین ،ہزارہ یونیورسٹی کے ایڈمن بلاکوں کی تعمیر کیلئے 562ملین،سڑکوں کیلئے 15ملین ،مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے490ملین ، واٹر سپلائی سیکموں کیلئے 5ملین اور چھوٹی ڈیمو ں کیلئے 450ملین رکھے گئے ہیں۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ کراچی میں پینے کیلئے پانی نہیں مجھے بھی پانی کے K۔4منصوبے کیلئے دو چار بلین،ٹرانسپورٹ کیلئے اتنی ہی رقم دی جانی چاہئے۔سینیٹرعثما ن کاکڑ نے کہا کوئٹہ ایئر پورٹ کی حالت بری ہے ،ڑوب ایئر پورٹ پر پینے کا پانی نہیں۔کمیٹی اجلاس میں سینیٹرز محسن لغاری،عثمان کاکڑ کے علاوہ پراجیکٹ ڈائریکٹر جنرل ریٹائر زاہد شاہ، ایڈیشنل سیکرٹری منصوبہ بندی ظفر حسن،ایڈیشنل سیکرٹری پانی بجلی حسن ناصر جامی،سید مظہر علی شاہ وزارت ریلوے،ایڈیشنل سیکرٹری بلوچستان دا?د خان بڑیچ کے علاوہ اعلی حکام نے شرکت کی