پنساری کے بیٹے نے دوسرا آپشن منتخب کیا‘ڈاکٹر نے چھت کے ساتھ رسی لٹکا کر اس کی ٹانگ باندھ دی اور اس نے پانچ ماہ تک اسی حالت میں رہنا تھا‘ وہ کروٹ تک نہیں بدل سکتا تھا‘ اس کی نظروں کے سامنے چھت تھی‘ چھت کی کڑیاں تھیں‘ کڑیوں پر مکڑیوں کے جالے تھے اورجالوں میں مکڑیوں کے انڈے تھے‘ دیوار کا آدھا حصہ بھی تھا‘ برتنوں کی ایک الماری بھی تھی‘ ایک ٹوٹی ہوئی کھڑکی تھی
اور کمرے کے مرکزی دروازے کا تھوڑا سا حصہ بھی تھا‘ ہر برٹ صرف اتنا کچھ دیکھ سکتا تھا لیکن سوال یہ تھاوہ یہ سب کچھ کتنی دیر دیکھتا؟ ایک گھنٹہ‘ ایک دن‘ ایک ہفتہ حد ایک ماہ لیکن اس نے اس حالت میں پانچ ماہ گزارنا تھے ۔انسان ایک دلچسپ حیوان ہے‘ اس کی یکسوئی کی حد چالیس منٹ ہوتی ہے‘ انسان کا دماغ چالیس منٹ سے زیادہ یکسو نہیں رہ سکتا‘ اس کے بعد اسے بریک کی ضرورت ہوتی ہے‘ یہی وجہ ہے ہالی وڈ کی نوے فیصد فلموں میں چالیس سے پینتالیس منٹ کے بعد وقفہ آ جاتا ہے تاکہ دیکھنے والوں کو بریک مل جائے‘ یہ فریش ہو جائیں اور آکر دوبارہ فلم کا حصہ بن جائیں۔ انسان کی آنکھ تین سیکنڈ میں سارے ماحول کا جائزہ لے لیتی ہے یہی وجہ ہے فلموں کا ایک شارٹ تین سیکنڈ کا ہوتا ہے‘ کیمرہ تین سیکنڈ میں منظر دکھاتا ہے اور اس کے بعد سٹوری یاکرداروں پر آجاتا ہے‘ فلموں میں کیمرے جب کرداروں یا سٹوری پر آنے کے بجائے زیادہ دیر تک مناظر پر رہتے ہیں تو اس سے سنسنی پیدا ہوتی ہے چنانچہ اسی لئے فلموں میں جب بھی منظر لمبے ہو جاتے ہیں یاکیمرہ آہستہ آہستہ چلتا ہے اور اس کے ساتھ ڈرامائی میوزک سنائی دیتا ہے تو اس سے دیکھنے والوں کے اندر سنسنی ابھرنے لگتی ہے۔ انسان میں ایک اور مینوفیکچرنگ فالٹ بھی ہے ‘
یہ ایک گھنٹے سے زیادہ کسی جگہ ٹک کر نہیں بیٹھ سکتا‘ ایک گھنٹے بعد انسان کا جسم اسے اٹھنے‘ چلنے پھرنے‘ دائیں بائیں گھومنے اور اپنا ماحول تبدیل کرنے پر مجبور کر دیتا ہے‘انسان واش روم میں جانے‘ چائے کا کپ اٹھانے‘ دوسرے کی مدد کرنے یا پھر کسی ملاقاتی سے ملنے کے بہانے اٹھتا ہے اور یوں حرکت کے فطری تقاضے پورے ہو جاتے ہیں لیکن ہربرٹ ایسا نہیں کر سکتا تھا‘
اس کی آنکھوں کے سامنے پانچ ماہ تک ایک ہی منظررہناتھا‘ اس کی یکسوئی بھی صرف مکڑی کے جالوں‘ دیوار کے آدھے حصے اور برتنوں کی الماری تک محدود تھی اور وہ اپنے جسم کو بھی حرکت نہیں دے سکتا تھا۔میں آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو ہربرٹ کے بارے میں بتاتا چلوں‘ہربرٹ کا پورا نام ہربرٹ جارج ویلز تھا لیکن دنیا اسے ایچ جی ویلز کے نام سے جانتی ہے۔ ایچ جی ویلز دنیا میں سائنس فکشن کا باوا آدم ہے‘
دنیا میں شاید ہی کوئی پڑھا لکھا شخص ہو جس نے ٹائم مشین کے بارے میں نہ پڑھا ہو‘ ایچ جی ویلز ٹائم مشین کے اس تصور کا خالق تھا‘ اس نے 1895ء میں ٹائم مشین لکھ کرنئے ادب کی بنیاد رکھی تھی لیکن کیا ایچ جی ویلز بچپن ہی سے ایج جی ویلز تھا‘ نہیں‘ ہرگز نہیں‘ وہ پنساری کا غریب اور مسکین بچہ تھا‘ اس نے 13 سال کی عمر میں ایک گودام میں کام شروع کیا‘
وہ بعد ازاں دواخانے میں کلرک بھرتی ہوا اورترقی کی انتہا پر پہنچ کر سکول ٹیچر بن گیا مگر یہ بعد کی باتیں ہیں‘ ہم اس کے بچپن کی بات کر رہے ہیں‘ وہ بچپن میں گلی میں کھیل رہا تھا‘ اس کی کسی امیر لڑکے کے ساتھ لڑائی ہو گئی‘ امیر لڑکے نے اسے اٹھا کر زمین پر دے مارا جس کی وجہ سے اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی‘ ڈاکٹر آیا‘ اس نے اسے بستر پر لٹایا‘ اس کی ٹانگ پر پلستر چڑھایا اور ٹانگ چھت کے ساتھ باندھ دی‘
ایچ جی ویلز پانچ ماہ تک اس حالت میں بستر پر لیٹا رہا‘ ان پانچ ماہ میں اس کے پاس دو آپشن تھے‘وہ پانچ ماہ تک چھت کی کڑیاں گنتا رہتا‘ وہ مکڑی کے انڈوں سے بچے نکلنے کا انتظار کرتا رہتا یا پھر اپنی اس فرصت کو کسی تعمیری کام پر لگا دیتا۔ اس نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا‘ اس نے کتابیں منگوائیں اور پڑھنا شروع کر دیں‘ وہ روزانہ اٹھارہ گھنٹے پڑھتا تھا‘ اس نے اس دوران دنیا جہاں کا ادب کھنگال دیا‘
اس نے کلاسیکی ادب بھی پڑھا‘ جدید لٹریچر بھی پڑھااور شاعری بھی پڑھی‘ کتابوں کی پانچ ماہ کی اس صحبت نے ایچ جی ویلز کا زندگی کے بارے میں رویہ تبدیل کر دیا‘ اس کے ذہن میں تخلیق کی ’’ جاگ‘‘ لگ گئی لہٰذاجس دن اس کی ٹانگ کھلی اس دن وہ ہربرٹ جارج ویلز سے ایچ جی ویلز ہو چکا تھا‘اس نے اس کے بعد گودام میں بھی کام کیا‘ وہ دواخانے میں کلرک بھی بھرتی ہوا اور اس نے سکول ٹیچر کی ملازمت بھی کی ل
یکن اس کے اندر کا ادیب جوان ہوتا رہا یہاں تک کہ اس نے 1895ء میں ٹائم مشین لکھا اور پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔یہ چھوٹا سا واقعہ ہمیں فرصت کے لمحوں‘ زندگی کے چھوٹے موٹے بحرانوں اور چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے دور کو تخلیقی انداز سے گزارنے‘ ان سے لیبارٹری کا کام لینے اور ان سے زندگی کی عمارت تعمیر کرنے کا سبق سیکھاتا ہے۔آپ دنیا کے تمام کامیاب اور ناکام لوگوں کا ماضی کھنگالیں تو آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے
ان تمام لوگوں کی زندگی میں ایچ جی ویلز جیسا کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آیا تھا‘ ان میں سے کچھ لوگ ایچ جی ویلز بن گئے اور باقی لوگوں نے یہ وقت مکڑی کے انڈے گننے اور چھت کی کڑیاں شمار کرنے میں ضائع کر دیا چنانچہ فرصت کا یہ وقت ان کی زندگی کا زنگ بن گیا اور یہ لوگ جب زندگی کی دوڑ میں واپس آئے تویہ لوگ ناکامی‘ سستی اور بے ہمتی کے ٹریک پر چلے گئے اوریوں ان کی زندگی المیہ داستان بن کر رہ گئی۔
ہم سب کی زندگی میں ایچ جی ویلزجیسے واقعات پیش آتے ہیں‘ ہم سب زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر فرصت کا شکار ہوتے ہیں‘ ہم سب نوکری سے بھی فارغ ہوتے ہیں‘ ہم صحت کے مسائل کا شکار بھی ہوتے ہیں اور ہمیں بعض اوقات جھوٹے سچے الزامات میں جیل بھی جانا پڑتا ہے لیکن ہم میں سے بہت کم لوگ ان لمحوں کو نعمت سمجھ کر گزارتے ہیں‘ ہم عموماً اس وقت کوسزا سمجھ بیٹھتے ہیں‘
ہم اسے کردہ اور ناکردہ گناہوں کا نتیجہ سمجھنے لگتے ہیں یا پھر اسے قدرت کا امتحان سمجھ لیتے ہیں۔ اپروچ کا یہ وہ فرق ہے جو ہربرٹ جارج ویلز کو ایچ جی ویلز بنا دیتا ہے جبکہ اس فرصت کو سزا‘انتقام اور امتحان سمجھنے والوں کو ناکام انسان۔ آپ اب اس خیال یا تھیسس کو پاکستان کی سیاسی قیادت میں رکھ کر دیکھئے‘ ہمیں اس وقت پاکستان مس مینجمنٹ کی انتہا پر دکھائی دے رہا ہے‘ پاکستان کا ہر شعبہ زوال کا شکار ہے‘
بجلی تو رہی ایک طرف ملک سے پانی تک غائب ہو چکا ہے‘ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ ہماری قیادت کے پچھلے دس سال ہیں‘ یہ لوگ 1996ء اور 1999ء میں اقتدار سے فارغ ہوگئے اور اس کے بعد ان کا زیادہ تر وقت جیلوں اور جلا وطنیوں میں گزرا‘ یہ لوگ اگراس وقت کو ایچ جی ویلز کی طرح نعمت سمجھ لیتے ‘یہ اس دوران پاکستان کے تمام ایشوز کا مطالعہ کرتے‘ یہ سٹڈی کرتے دنیا کے دوسرے ممالک نے ان ایشوز کو کیسے حل کیا تھا‘
یہ پاکستان کے ایکسپرٹس کی ٹیمیں بناتے‘ ان کے ساتھ رابطے رکھتے‘ یہ ان آٹھ دس برسوں میں ان ایشوز کے خاتمے کیلئے جامع پالیسیاں بنا تے اور انہیں جوں ہی فروری 2008ء میں حکومت ملتی یہ ان پالیسیوں پر عمل درآمد شروع کر دیتے تو آج ملک میں مسائل کا اتنا انبار نہ ہوتا‘ یہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی غلطی تھی‘دونوں کی قیادت نے آٹھ دس سال کی فرصت کو نعمت کی بجائے زحمت سمجھ لیا تھال
ہٰذا آج پاکستان پیپلز پارٹی اس غلطی کا خمیازہ بھگت رہی ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن آنے والے دور میں اس کا نقصان اٹھائے گی کیونکہ مسلم لیگ ن کی قیادت بھی فرصت کو نعمت نہیں سمجھ رہی۔یہ 18کروڑ لوگوں کا ملک ہے‘کیا ان اٹھارہ کروڑ لوگوں میں سے ایسے چھ‘ سات ہزار سمجھ دار‘ ایماندار‘ دانش مند اور جینئس لوگ تلاش نہیں کئے جا سکتے جو ہمارے مسائل کو سمجھتے بھی ہوں اور انہیں حل کرنے کی استطاعت بھی رکھتے ہوں‘
اگر اس ملک میں ایسے چھ‘ سات ہزار لوگ نکل سکتے ہیں تو پاکستان مسلم لیگ ن‘ مسلم لیگ ق‘ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف ایسے لوگوں کو تلاش کیوں نہیں کرتی؟ یہ ان کے تھینک ٹینکس کیوں نہیں بناتی اور یہ تھینک ٹینکس ملک کے لئے پالیسیاں کیوں نہیں بناتے؟‘ قدرت نے تمام جماعتوں کو ایچ جی ویلز کی طرح فرصت عنایت کر رکھی ہے‘ ان جماعتوں اور ان کی قیادت نے اگر اس نعمت کواستعمال کر لیا
تو یہ آگے چل کر کامیاب بھی ہو جائیں گے اور ملک کو اچھی قیادت بھی مل جائے گی بصورت دیگر ہماری موجودہ قیادت کی طرح آنے والے لوگ بھی مکڑی کے جالے گن گن کر فارغ ہو جائیں گے‘ یہ بھی دوبئی چلے جائیں گے اور شوکت عزیز اور پرویز مشرف کی طرح باقی زندگی آہیں بھر کر گزار دیں گے ۔