اسلام آباد(این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ کچھ اراکین اسمبلی کہتے ہیں کہ دال مہنگی کردی گئی ہے اگر دال مہنگی ہے تو مرغی کا گوشت کھائیں وہ سستا کردیا گیا ہے۔قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے لئے پیش کئے گئے بجٹ میں شامل لازمی اخراجات کی منظوری کے دوران اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت مالیاتی خسارے میں کمی پر بھرپور توجہ دے رہی ہے، ہم نے 3 سال میں ترقیاتی بجٹ میں 2 گنا اضافہ کردیا ہے ٗ مالیاتی خسارہ نصف رہ گیا ہے۔ ہم نے 34 میں سے 32 اداروں کے خفیہ فنڈ ختم کردیئے، اب انٹیلی جنس اداروں کے سوا کسی کے پاس سیکرٹ فنڈ نہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے خسارے میں جاسکتے ہیں ٗرواں مالی سال میں 3 صوبوں نے خسارے کے بجٹ پیش کئے ہیں اور یہ غیر قانونی نہیں ہے۔وزیرخزانہ نے کہاکہ کشکول کی دیگ موجودہ حکومت نے نہیں بنائی 2000 سے 2013 تک لئے گئے قرضوں کے حوالے سے پرویز مشرف ، (ق) لیگ اور پیپلز پارٹی سے بھی پوچھا جائے۔ جو بھی قرضے لئے جاتے ہیں اس میں پارلیمنٹ کی منظوری شامل ہوتی ہے ۔اسحق ڈار نے کہا کہ کچھ اراکین اسمبلی کہتے ہیں کہ دال مہنگی کردی گئی ہے اگر دال مہنگی ہے تو مرغی کھائیں ہم نے مرغی 200 روپے فی کلوکردی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لوگ صرف خبروں میں آنے کے لیے غیر ضروری باتیں کرتے ہیں، شیخ رشید جلد شادی کرلیں تاکہ انہیں بچوں کی ضروریات کے بارے میں علم ہوسکے۔ وہ شیخ رشید کو چیلنج کرتے ہیں اگر بیرون ملک ان کا ایک روپیہ بھی ثابت ہوجائے تو سیاست چھوڑ دیں گے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ افغانستان سے معاملات پر حکومت باخبر ہے، طورخم بارڈر پر اب تک جو بھی ہوا ہے وہ اچھا شگون نہیں۔ آپریشن ضرب عضب پر اب تک 145 ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں ٗ 100 ارب مزید رکھے جارہے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہاکہ قرضوں کا حساب پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف سے بھی پوچھا جائے۔ وزیر خزانہ نے جھوٹے الزمات لگانے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع ہیں جس نے جھوٹا الزما لگایا عدالت لے جاؤں گا ۔ایوان صدر کے اخراجات ماضی کے مقابلے میں کم کئے گئے ہیں، ماضی کی طرح صدر مملکت ایسے نہیں جن کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی اور آئی بی کے علاوہ تمام اداروں کا سیکرٹ سروس فنڈ بند کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پچھلی 2 حکومتوں میں کشکول کی دیگ بن گئی ۔اسحاق ڈار نے کہا کہ بیرونی قرضے جی ڈی پی کے 50فیصد تک لانے کا ہدف ہے،بیرونی قرضوں کے بارے میں ہم سے نہیں پچھلی حکومتوں سے پوچھیں۔