ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

لوگ جنہوں نے بزدل بنا دیا

datetime 20  جنوری‬‮  2014
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

صحافت میں بھی دو طبقے ہیں‘ بالائی طبقہ اور زیریں طبقہ۔ بالائی طبقے میں مالکان‘اینکر پرسنز‘ ایڈیٹرز‘بیورو چیفس‘ کالم نگار اور ڈائریکٹرز آتے ہیں‘ یہ صحافت کا مراعات یافتہ طبقہ ہے‘ یہ گھروں کے مالک بھی ہیں‘ بڑی گاڑیوں میں بھی سفر کرتے ہیں‘ ان کی تنخواہیں اور مراعات بھی زیادہ ہوتی ہیں اور یہ حکومتوں‘ سیاسی لیڈرز اور اعلیٰ بیورو کریسی میں بھی مقبول ہوتے ہیں‘ یہ دنیا بھر کا سفر کرتے ہیں‘ سفارت کاروں سے ملتے ہیں اور سرابرہان مملکت سے بھی تعلقات استوار کرتے ہیں‘ یہ لوگ دنیا بھرکی نعمتیں خود بھی افورڈ کر سکتے ہیں اور حکومتیں بھی انہیں ان کا جائز اور ناجائز حق دینے کیلئے تیار رہتی ہیں‘ میں قطعاً یہ دعویٰ نہیں کرتا صحافت کے بالائی طبقے کے تمام رکن منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں‘ مالکان کی اکثریت کو چھوڑ دیا جائے تو بالائی طبقے کے زیادہ تر رکن سیلف میڈ ہیں‘ یہ لوگ یونیورسٹیوں سے نکلے‘ انہوں نے دن رات کام کیا‘ اپنی مہارت میں اضافہ کیا‘ صحافت میں آنے والی تبدیلیوں کا قبل از وقت اندازہ لگایا‘ زندگی میں بڑے بڑے رسک لئے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے ان پر کرم کیا‘ ان کی محنت پر رحم کھایا اور یہ لوگ کامیابی کے سنہری راستے پر آ گئے‘ معاشرے کے قحط الرجال‘ صلاحیتوں کی کمی‘ مطالعے سے دوری اور تیسری دنیا کا غریب ملک ہونا یہ ’’نعمتیں‘‘ ان کیلئے فائدہ مند ثابت ہوئیں اور یہ سٹار بن گئے‘ آپ یقین کیجئے میں اگر یورپ کے کسی ملک میں پیدا ہوتا‘ میرا تعلق ترکی‘ مصر‘ ملائشیا یا انڈونیشیا ہی سے ہوتا‘ میں بھارت‘ جاپان یا چین کا باشندہ ہوتا تو میں کالم نگار ہوتا اور نہ ہی اینکر پرسن‘ میں وہاں زیادہ سے زیادہ سب ایڈیٹر ہوتا یا پھر کسی درمیانے درجے کے اینکر پرسن کا ریسرچر یا بستہ بردار ہوتا‘ یہ اس ملک کی مہربانی اور معاشرے میں علم اور مطالعے کی کمی ہے‘ جس نے مجھے دانشور بھی بنا دیا‘ کالم نگار بھی اور سینئر اینکر بھی۔ میں جب بھی کسی کے منہ سے اپنے بارے میں سینئر صحافی‘ سینئر تجزیہ کار اور یا سینئر اینکر پرسن سنتا ہوں تو میری ہنسی نکل جاتی ہے کیونکہ میں اپنی اوقات سے واقف ہوں‘ میرے اردگرد کیونکہ دور دور تک چھوٹے قد کے لوگ آباد ہیں چنانچہ میں صرف پنجوں پر کھڑا ہونے کی وجہ سے قد آور بن گیا‘ صحافت کے بالائی طبقے کے زیادہ تر ارکان میری طرح خوش نصیب ہیں‘ ان کی خوش بختی انہیں اس طبقے میں لے آئی‘ صحافت کی پالیسیاں یہ لوگ بناتے ہیں‘ اخبارات کی سرخیاں ہوں‘ تصاویر ہوں‘ اداریے ہوں‘ کالم ہوں‘ چینلز کے نیوز بلیٹن ہوں‘ بریکنگ نیوز ہوں‘ خبروں کا رن ڈاؤن ہو‘آن لائین بیپرز کے فیصلے ہوں‘ ٹاک شوز ہوں‘ ٹاک شوز کے مہمانوں کاتعین ہو‘ ایشوز ہوں یا پھر نیوز اینکرز کیلئے الفاظ کا چناؤ ہو‘ یہ تمام فیصلے صحافت کا بالائی طبقہ کرتا ہے‘ میں یہ دعویٰ بھی نہیں کرتا‘ یہ لوگ ان فیصلوں میں مکمل آزاد ہیں‘ ان سے اوپر بھی دو باڈیز ہیں‘ مالکان کے دو ادارے ہیں‘ اے پی این ایس (آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی) اور پی بی اے (پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن)۔ یہ دونوں باڈیز مالکان پر مشتمل ہیں اور یہ اخبارات اور ٹیلی ویژن کی ڈائریکشن طے کرتی ہیں‘ یہ پوری میڈیا انڈسٹری کے اینکرز‘ ڈائریکٹرز‘ نیوز اینکرز اور اشتہارات کے شعبوں کو کنٹرول کرتی ہیں‘ مالکان کو کنٹرول کرنے کیلئے حکومت نے پیمرا بنا رکھی ہے‘ یہ باڈی ٹیلی ویژن چینلز کو کنٹرول کرتی ہے‘ تحریک طالبان پاکستان سمیت تمام کالعدم تنظیموں کی کوریج پر پابندی چینلز‘ مالکان یا اینکرز نے نہیں لگا رکھی‘ یہ پابندی پیمرانے عائد کی ہے اور چینلز اس کے پابند ہیں‘ جو چینل اس کی خلاف ورزی کرتا ہے‘ پیمرا جرمانہ بھی کرتی ہے اور چینل پر پابندی لگانے کا نوٹس بھی جاری کر دیتی ہے‘ بہرحال پیمرا سے لے کر مالکان کی باڈی تک اور مالکان کی باڈی سے لے کر ٹاپ مینجمنٹ تک یہ صحافت کا بالائی طبقہ ہے اور میڈیا کی تمام پالیسیاں یہ طبقہ بناتا ہے۔
ہم اب آتے ہیں‘ زیریں طبقے کی طرف۔ یہ صحافتی کارکن ہیں‘ یہ لوگ دو حصوں میں تقسیم ہیں‘ جرنلسٹ اور نان جرنلسٹ‘ جرنلسٹ میں رپورٹرز‘ سب ایڈیٹرز‘ فوٹو گرافرز اور لکھاری آتے ہیں‘ نان جرنلسٹ میں پیج میکرز‘ کمپیوٹر آپریٹر‘ فوٹو گرافرز‘ کیمرہ مین‘ لائٹ مین‘ ٹیکنیشنز‘ ایڈیٹرز‘ پروڈیوسرز‘ ڈرائیورز‘ گارڈز‘ ٹی بوائز‘ فون آپریٹرز اور ڈی ایس این جی انچارج شامل ہیں‘ یہ لوگ صرف اور صرف احکامات پر عمل کرتے ہیں‘ یہ فلم بناتے ہیں‘ ایڈٹ کرتے ہیں‘ ٹرانسمیشن کا بندوبست کرتے ہیں‘ ڈی ایس این جی چلاتے ہیں‘ مہمانوں کی خاطر داری کرتے ہیں اور دفاتر‘ سٹوڈیوز اور گاڑیوں کی حفاظت کرتے ہیں‘ یہ لوگ پالیسی ساز نہیں ہیں‘ یہ صرف اور صرف صحافت کے بالائی طبقے کی بنائی ہوئی پالیسیوں کو عملی شکل دیتے ہیں‘ یہ لوگ انتہائی مشکل بلکہ کٹھن زندگی گزارتے ہیں‘ یہ قلیل تنخواہوں میں پندرہ پندرہ گھنٹے کام کرتے ہیں‘ یہ ویگنوں میں‘ موٹرسائیکلوں پر اور بسوں میں دھکے کھاتے ہیں‘ پانچ پانچ میل پیدل چلتے ہیں‘ پگھلتی دوپہروں‘ منجمد راتوں اور برستی شاموں میں بھوکے پیاسے ڈیوٹی دیتے ہیں‘ پورا عالم اسلام افطار کے وقت دستر خوان پر پکوڑوں سے لطف اندوز ہوتا ہے لیکن یہ لوگ منہ میں ایک ایک کھجور ٹھونس کر پورے ملک کو افطار کی نشریات دکھاتے ہیں‘ لوگ جمعہ اور عید کی نماز پڑھتے ہیں لیکن یہ مذہبی فریضہ چھوڑ کر آپ کو وی وی آئی پی نمازیوں کا دیدار کراتے ہیں‘ یہ ان امام بارگاہوں‘ مساجد اور محرم اور بارہ ربیع الاول کے جلوسوں کی لائیو کوریج کرتے ہیں جن میں حکومت کے بڑے بڑے گردے اور بڑے بڑے جگر شریک ہونے کی جرأت نہیں کرتے‘ یہ آپ کو اپنی جان پر کھیل کر بم دھماکے بھی دکھاتے ہیں‘ یہ شدت پسندوں‘ دہشت گردوں اور طالبان کے سامنے کھڑے ہو کر آپ کو حالات بھی بتاتے ہیں اور یہ ہم جیسے نالائق‘ سست اور کم ظرف اینکرز کیلئے اس مٹیریل کا بندوبست بھی کرتے ہیں جن کی بنیاد پر ہم اپنے پروگراموں کا کاروبار چلاتے ہیں‘ یہ ٹیکنیکل سٹاف نہ ہو‘ یہ رپورٹرز نہ ہوں یا پھر یہ سب ایڈیٹرز نہ ہوں تو یقین کیجئے‘ ہم اینکرز اور کالم نگاروں کو اپنی دانشوری اور جرأت چمکانے کا موقع ملے اور نہ ہی آپ حالات کا اندازہ لگا سکیں‘ آپ ٹیلی ویژن کی سکرین پر صدر کو دیکھتے ہیں‘ وزیراعظم‘ وزراء اعلیٰ‘ گورنرز‘ سروسز چیفس‘ چیف جسٹس اور وزراء کی بقراطیاں دیکھتے ہیں‘ آپ احمد رضا قصوری کو شیم آن یو‘ شیم آن یو اور بھارتی میڈیا اور لفافہ صحافی کے نعرے لگاتے دیکھتے ہیں یا پھر آپ وزیراعلیٰ پنجاب کو سیلاب کے پانی میں چلتے دیکھتے ہیں‘ یہ تمام کمال صحافت کے اس زیریں طبقے کے خون جگر کی نمود ہے‘ یہ لوگ نہ ہوں تو ٹیلی ویژن سکرینوں کے رنگ اڑ جائیں اور اخبارات کے چٹخارے پھیکے پڑ جائیں‘ صحافت اگر جنون ہے تو اصل جنونی یہ لوگ ہیں‘ صحافت اگر مقدس پیشہ ہے تو اس کا اصل تقدس یہ لوگ ہیں‘ صحافت اگر خدمت ہے تو اس خدمت کے اصل خدمتگار یہ لوگ ہیں اور صحافت عبادت ہے تو اس عبادت کا اصل سجدہ یہ لوگ ہیں‘ یہ لوگ صحافت کے اصل ہیرو ہیں‘ میں اگر ان لوگوں میں چھوٹے علاقوں کے نامہ نگاروں کو شامل نہ کروں تو یہ ظلم ہو گا‘ نامہ نگار صرف اور صرف جنون کیلئے کام کرتے ہیں‘ ان بے چاروں کو معاوضہ تک نہیں ملتا‘ یہ چھوٹی چھوٹی ملازمتیں کرتے ہیں‘ کاروبار کرتے ہیں یا پھر ادھار پر زندگی گزارتے ہیں مگر ہمیں خبریں بھجواتے رہتے ہیں۔
ہم اگر صحافتی قربانیوں کی بیلنس شیٹ بنائیں تو ہمیں اس میں صرف زیریں طبقے کے صحافی نظر آئیں گے‘ اغواء کون ہوتے ہیں؟ عام صحافی‘ پولیس کی مار کون کھاتے ہیں؟ عام صحافی‘ قتل کون ہوتے ہیں؟ عام صحافی‘ جاگیرداروں‘ سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کے ظلم کا شکار کون ہوتے ہیں؟ عام صحافی‘ بھوکے کون مرتے ہیں؟ عام صحافی‘ حادثوں کا شکار کون ہوتے ہیں؟ عام صحافی‘ گالی کون کھاتے ہیں؟ عام صحافی‘ لفافہ جرنلسٹ اور بلیک میلر کا طعنہ کون سہتے ہیں؟ عام صحافی‘ خفیہ ایجنسیوں کا نشانہ کون بنتے ہیں؟ عام صحافی‘ شدت پسندوں‘ دہشت گردوں اور طالبان کا ٹارگٹ کون بنتے ہیں؟ عام صحافی‘ بم دھماکوں میں کون مارے جاتے ہیں؟ عام صحافی‘ جلسوں میں مار کون کھاتے ہیں؟ عام صحافی اور سڑکوں‘ گلیوں اور بازاروں میں ذلیل کون ہوتے ہیں؟ عام صحافی اور بچے کن کے بھوکے رہتے ہیں؟ دواؤں کو کون ترستے ہیں؟ بے گھر کون ہوتے ہیں؟ جوتے کن کے پھٹتے ہیں؟ امداد کا راستہ کن کی بیوائیں تکتی ہیں اور بچے کن کے یتیم ہوتے ہیں؟ ان عام صحافیوں کے‘ صحافت کے زیریں طبقے سے تعلق رکھنے والے یہ صحافی ہر طرف سے مار کھاتے ہیں‘ مالکان سے بھی‘ سسٹم سے بھی‘ عزیزوں رشتے داروں سے بھی‘ سینئرز سے بھی اور صحافت کے بالائی طبقے سے بھی‘ غلطی ہم کرتے ہیں مگر مار یہ بے چارے کھاتے ہیں اور پالیسیاں ہم بناتے ہیں لیکن قتل یہ لوگ ہوتے ہیں۔
مجھے بزدل ان بے چاروں‘ ان مظلوموں نے بنا دیا ہے‘ میں جب بھی کالم لکھنے لگتا ہوں یا میرا پروڈیوسر پروگرام سے قبل الٹی گنتی شروع کرتا ہے تو ڈرائیور خالد‘ ٹیکنیشن وقاص اور گارڈ اشرف جیسے لوگ میرا ہاتھ‘ میری زبان تھام لیتے ہیں‘ میں ایک لفظ بولنے یا لکھنے سے قبل سوچتا ہوں یہ لفظ کہیں اس فہرست میں اضافہ تو نہیں کر دے گا جس میں میرے جیسے لوگوں کی غلطیاں خالد‘ وقاص اور اشرف کی تعداد بڑھا رہی ہیں‘ میں سوچتا ہوں میں تو لکھ کر یا بول کر گھر چلا جاؤں گا مگر میرا بولا یا لکھا ہوا لفظ اشرف آرائیں کی چار ماہ کی دلہن کو بیوہ بنا دے گا‘ یہ خالد کے چھ ماہ کے اس بچے کو یتیم کر دے گا جس نے ابھی اپنے والد کو پہچاننا بھی نہیں شروع کیا‘ میرے یہ سارے اشرف‘یہ سارے وقاص اور یہ سارے خالد بلٹ پروف گاڑیوں کے بغیر میدان میں ہوتے ہیں‘ ان کے پاس تو بلٹ پروف جیکٹس بھی نہیں ہیں‘ یہ وہ احساس ہے جو میرے سر کو ظالموں کے سامنے اٹھنے نہیں دیتا‘ ورنہ میرے اندر بھی ایٹم بم جتنی بغاوت ہے اور یہ بغاوت روز پھٹ کر باہر آنا چاہتی ہے مگر خالد‘ وقاص اور اشرف جیسے شہید اس بغاوت کا ہاتھ تھام لیتے ہیں‘ یہ مجھے روز روک کر کہتے ہیں’’ کم از کم آپ تو یہ نہ کریں‘ آپ تو ہمارا دکھ سمجھتے ہیں‘ آپ تو ہم میں سے نکل کر اوپر آئے ہیں‘ آپ تو ہم میں سے تھے‘ آپ تو ہماری مجبوریاں جانتے ہیں‘‘ اور میں بزدل بن جاتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں جس دن خالد مرے گا‘ میڈیا کے فیلڈ مارشل اسے نجی ٹی وی کا ڈرائیور قرار دیں گے اور اس کے جنازے تک میں شریک نہیں ہوں گے۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…