اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم کے معاون خصوصی امور خارجہ طارق فاطمی نے کہا ہے کہ نوشکی ڈرون حملے کا عسکری قیادت کو بھی علم نہیں تھا ٗڈرون کا پتہ لگانے کیلئے پاکستان کے پاس ایسی کوئی ٹیکنالوجی موجود نہیں ٗڈرون حملوں پر احتجاج تو کیا جاسکتا ہے ٗپاکستان منہ توڑ جواب دینے کا متحمل نہیں ہوسکتا ٗ ڈرون حملوں کی پالیسی سے امریکہ کو نقصان ہوگا اور خطے پر منفی اثرات مرتب ہونگے ٗ حقانی نیٹ ورک سمیت تمام دہشتگرد گروپس کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے ٗافغانستان میں امن صرف پاکستان نہیں لاسکتا ٗیہ تمام ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ حملہ کو انٹیلی جنس کی ناکامی نہیں کہا جاسکتا اس میں کئی اندرونی بیرونی عناصر ملوث ہیں لیکن کئی باتیں ایسی ہیں جنہیں افشا نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے پاس ابھی تک ایسی کوئی بھی ٹیکنالوجی موجود نہیں جس سے ڈرون کا پتا لگایا جاسکے۔طارق فاطمی نے کہا کہ پاکستان ڈرون حملوں پر احتجاج تو کرسکتا ہے لیکن ان کا منہ توڑ جواب دینے کا متحمل نہیں ہوسکتاتاہم ایسے حملوں کی کبھی اجازت نہیں دی جائے گی۔وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور نے مزید کہا کہ ڈرون حملوں کی پالیسی سے امریکا کو تو نقصان ہوگا، ساتھ ہی خطے پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی سے متعلق سوال پر طارق فاطمی نے واضح کیا کہ پاکستان ناصرف حقانی نیٹ ورک بلکہ تمام دہشت گرد گروپس کے خلاف ایکشن میں ہے لیکن ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ افغانستان میں امن صرف پاکستان نہیں لاسکتا، یہ تمام ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ ایک طرف امریکا مسلسل پاکستان کی سرزمین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو پھر ہم ان سے امداد کیوں لیتے ہیں تو طارق فاطمی نے کہا کہ ہماری کوشش یہی ہے کہ ہم امریکا سے کسی قسم کی امداد نہ لیں لیکن اس کا تعلق ملکی اقتصادی صورتحال سے ہے اور یقیناًہم کسی سے بھی امداد لینے کے خواہش مند نہیں ہیں۔طارق فاطمی نے کہا کہ موجودہ حالات میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل ایک غیر یقینی سی صورتحال کا شکار ہے کیونکہ ملا منصور کے بعد ہمارے ادارے اب طالبان کی نئی قیادت کے ساتھ رابطہ کریں گے۔انھوں نے کہا کہ اس بات کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ افغان امن عمل اور کیو سی جی نے جو فیصلہ کیا تھا اسے اس ڈرون حملے نے ختم کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ طالبان سے صرف پاکستان نہیں دوسرے ملک بھی رابطے میں ہیں اور دوسرے ممالک بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہاں امن کا واحد راستہ مذاکرات ہی ہیں۔