لندن ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ورلڈ کپ آئے اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کو کسی بھی مشکل صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔موجودہ عالمی کپ کو ہی لے لیجیے۔ سعید اجمل اور محمد حفیظ کا مشکوک بولنگ ایکشن کی زد میں آنا، فاسٹ بولر جنید خان اور پھر محمد حفیظ کا بھی ان فٹ ہو جانا پاکستانی ٹیم کے لیے ایک کے بعد ایک دھچکہ ہیں۔غیرملکی ویب سائٹ کے مطابق ورلڈ کپ میں یا اس سے قبل انجریز کا سلسلہ 1975 کے پہلے ورلڈ کپ کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ آصف اقبال پہلے کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے۔ آسٹریلیا کے خلاف پہلے میچ میں انھوں نے ڈینس للی، جیف تھامسن اور میکس واکر کے خطرناک پیس اٹیک کے سامنے نصف سنچری اسکور کی لیکن پھر انھیں اپنڈکس کی تکلیف کے سبب ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ وہ ویسٹ انڈیز اور سری لنکا کے خلاف اگلے دونوں میچ نہ کھیل سکے۔قیادت کی ذمہ داری ماجد خان کو ملی۔تاہم ٹیم پہلے مرحلے سے ہی وطن واپسی ہو گئی۔1983 میں عمران خان کی بولنگعروج پر تھی۔ لیکن اسٹریس فریکچر کی وجہ سے وہ بولنگ کے قابل نہیں رہے، انہوں نے ورلڈکپ میں بحیثیت بیٹسمین شرکت اور قیادت کی، قومی ٹیم کو ان کی بولنگ کا شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ 1992 میں عمران کی کپتانی میں پاکستان عالمی چیمپئن بنالیکن ورلڈ کپ سے قبل دنیا کے تیز ترین بولر وقار یونس اور اسٹار بیٹسمین سعید انور ان فٹ ہوگئے اور کھیلنے سے محروم رہے۔ وسیم اکرم کی قیادت میں پاکستانی ٹیم 1996 کے عالمی کپ کے کوارٹر فائنل میں پہنچی جہاں اس کا مقابلہ بھارت سے تھا۔ ٹاس سے کچھ دیر قبل وسیم اکرم نے ٹیم کو مطلع کیا کہ وہ کندھے میں تکلیف کے سبب یہ میچ نہیں کھیل رہے۔ ان کے اچانک نہ کھیلنے پر کئی سوالات اٹھے اور اس میچ کا تفصیل سے ذکر جسٹس قیوم کمیشن رپورٹ میں بھی موجود ہے۔