اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر تجزیہ نگار نے نجی ٹی وی پروگرام میں نئے انکشافات کر دیئے۔ تجزیہ نگار نے کہا کہ اگر نواز شریف کا نام پانامہ پیپرز میں سے نکال بھی دیا جائے تب بھی حسن نواز اور حسین نواز سے سوالات ہوں گے ۔ کمیشن بنے گا تو سوالات ہوں گے کہ یہ پیسہ کیسے بنا؟ کہاں سے کمایا گیا کیونکہ حسن اور حسین نواز1993-94 ءمیں کوئی بزنس نہیں کرتے تھے۔ لا محالہ بات نواز شریف تک پہنچے گی اور انہیں اپنے بچوں کو بتانا پڑے گا کہ ان کے پاس یہ پیسہ کہاں سے آیا۔ رؤف کلاسرا نے کہا کہ اپوزیشن کے ذہن میں یہ بات ہو گی کہ اگر ہم وقتی طور پر نواز شریف کو ریلیف دے بھی دیتے ہیں تو انہیں پھر بھی جوابات ہمیں دینے پڑےں گے۔ اعتزاز احسن نے جو سات سوالات پوچھے تھے اس میں سے ایک انہوں نے نہیں پوچھا۔ اعتزاز احسن نے یہ جان بوجھ کر کیا تھا یا ان کے ذہن میں ویسے ہی نہیں رہا اس کا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ سوال یہ تھا کہ یہ پیسہ پاکستان سے باہر کیسے گیا تھا؟اب تو بات اور زیادہ بڑھ گئی ہے کہ میاں نواز شریف نے اپنے والد صاحب کا کہہ دیا ہے کہ میاں شریف نے 9 ملین ڈالر کی دبئی یا خلیج میں جا کر مل لگائی تھی۔ رؤف کلاسرا نے کہا کہ اب تو ٹرمز آف ریفرنس میں یہ بھی ڈالنا چاہئے کہ میاں شریف کے پاس 9 ملین ڈالر کہاں سے آئے تھے؟ بقول ان کے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی تمام چیزیں قومیا لی تھیں ‘ان سے سب کچھ چھین لیا تھا‘ ان کے پاس تو کھانے پینے کو کچھ نہیں تھا۔ وہ پیسہ پاکستان سے باہر کیسے گیا؟ جبکہ ڈاکٹر مبشر حسن کہہ چکے ہیں کہ ان دنوں میں فری ڈالر کا فلو نہیں تھا اور ڈالر پاکستان سے باہر نہیں لیجایا جا سکتا تھا۔ نہ ہی میاں شریف کو اجازت دی گئی تھی ۔ کمیشن کو یہ پوچھنا چاہئے کہ کیا نواز شریف کو یہ علم تھا کہ ان کے بچوں نے آف شور کمپنیز بنائی ہیں یا نہیں؟اس میں میاں نواز شریف کو TOR’s میں آنا چاہئے ۔ نواز شریف کو کمیشن بلا کر پوچھے کہ آپ کے تین بچوں نے جن کی عمریں 17,18 سال کے لگ بھگ تھیں اور وہ خود مختار نہیں تھے ۔ کیا آپ کو علم تھا کہ آپ کے بچوں نے یہ آف شور کمپنیز بنائی ہیں؟ نواز شریف کو کمیشن کے سامنے حلف دینا چاہئے۔ تجزیہ نگار نے کہا کہ اگر نواز شریف کہتے ہیں کہ ہمارے علم میں نہیں تھا ، ہمارے بچوں نے خود ہی آپس میں طے کر لیا کہ بڑوں کو بتائے بغیر لاکھوں ڈالر چپکے سے لیجائیں گے اور جا کر آف شور کمپنیز بنائیں گے ۔ یہی سوال شہباز شریف سے بھی ہونا چاہئے ۔ ان تمام لوگوں کو پتہ تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔