جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ہم نے اپنے بچوں کو دشمن سے بچانا ہے

datetime 26  جنوری‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پوپٹ راﺅ کے سردار بننے سے پہلے حیوڑے بازار کی حالت انتہائی افسوس ناک تھی‘ گاﺅں میں سال میں صرف 15 انچ بارش ہوتی تھی‘ خشک سالی اور قحط عام تھا‘ گاﺅں میں درجنوں شراب خانے بھی تھے اور ہر گھر میں دیسی شراب کی بھٹی بھی تھی‘ گاﺅں کے مردوں کے صرف تین کام تھے‘ سارا دن گھر لیٹے رہنا‘ شام کو جی بھر کر شراب پینی اور گلیوں میں نئی دشمنی کے بیج بونا‘ حیوڑے بازار میں غربت زیادہ تھی‘ بیماری زیادہ تھی یا پھر جہالت‘ کوئی غیر جانبدار شخص آسانی سے یہ فیصلہ نہیں کر سکتا تھا‘ کثرت شراب نوشی‘ بیماریوں اور دشمنیوں کی وجہ سے گاﺅں کی اوسط عمر 45 سال تھی‘ گاﺅں کے زیادہ تر لوگ 40 سے 50 سال کے درمیان دنیا سے رخصت ہو جاتے تھے‘ گاﺅں پانی کی شدید کمی کا شکار بھی تھا‘ بارش ہوتی نہیں تھی‘ زمین میں پانی تھا نہیں اور اگر کسی جگہ سے بھی پانی نکل آتا تھا تو وہ کھارا ہوتا تھا‘ گاﺅں میں سکول اور ہسپتال بھی نہیں تھا‘ بچے پیدائش کے چند سال بعد گدھوں کی دم کھینچنے‘ کتوں پر پانی پھینکنے اورگاﺅں کی واحد دکان سے گڑ چوری کرنے لگتے تھے‘ لڑائیاں شروع ہوتی تھیں تو دس دس سال چلتی تھیں‘ گاﺅں کے چند لڑکوں نے گینگ بھی بنا لیا تھا‘ یہ پڑوسی گاﺅں اور بڑی سڑک سے گزرنے والی گاڑیاں لوٹ لیتے تھے لیکن پھر ”حیوڑے بازار“ میں ایک معجزہ ہو گیا‘ گاﺅں کے سردار بگوجی پوار نے اپنے بیٹے پوپٹ راﺅ پوار کو پڑھنے کےلئے شہر بھجوا دیا‘ پوپٹ ذہین بھی تھا‘ فطین بھی اور انقلابی بھی۔ پوپٹ نے کامرس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور گاﺅں واپس آگیا‘ والد کا انتقال ہو گیا‘ والد کے بعد پوپٹ گاﺅں کا سردار بن گیا۔
پوپٹ راﺅ گاﺅں کےلئے جنرل راحیل شریف ثابت ہوا‘ وہ آیا اور اس نے چند برسوں میں گاﺅں کی حالت بدل دی‘ پوپٹ نے پورے گاﺅں کو اکٹھا کیا اور ان سے صرف ایک سوال پوچھا ”کیا آپ اور آپ کے بچے اسی طرح محرومی میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں؟“ پورا گاﺅں یک آواز ہو کر بولا ”نہیں‘ ہم ایک باعزت‘ کامیاب اور صحت مند زندگی چاہتے ہیں“ پوپٹ نے جوشیلی آواز میں زندہ باد کا نعرہ لگایا اور اس کے بعد حیوڑے بازار میں اس انقلاب کی بنیاد رکھ دی جو اس وقت پوری دنیا میں تبدیلی کی کامیاب مثال بن چکا ہے‘ پوپٹ نے کیا کیا؟ آپ یقینا اس وقت یہ سوچ رہے ہوں گے‘ پوپٹ نے شروع میں تین کام کئے‘ اس نے گاﺅں میں شراب نوشی پر پابندی لگا دی‘ شراب خانے بند کر دیئے اور شراب کی بھٹیاں توڑ دیں‘ دو‘ اس نے گاﺅں میں سب سے پہلے پانی کا ذخیرہ بنانے کا فیصلہ کیا‘گاﺅں کے لوگوں کو ساتھ ملایا‘ خود کَسی اور بیلچہ اٹھایا اور حیوڑے بازار میں مٹی اور پتھر کے ڈیم بنانا شروع کر دیئے‘ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے‘ گاﺅں میں اس وقت مٹی کے 52 اور پتھروں کے 32 ڈیم بن چکے ہیں جبکہ دو بڑے واٹر ٹینک بھی تعمیر ہو چکے ہیں اور پوپٹ راﺅ کا تیسرا بڑا فیصلہ‘ گاﺅں کے نوجوان سردار نے تین تین خاندانوں کے گروپ بنائے‘ گاﺅں کی زمینوں کو مختلف یونٹوں میں تقسیم کیا اور ہر یونٹ ایک گروپ کے حوالے کر دیا‘ یہ تین فیصلے حیوڑے بازار کےلئے دم عیسیٰ ثابت ہوئے اور گاﺅں کے مردہ وجود میں زندگی آنے لگی‘ یہ گاﺅں دیکھتے ہی دیکھتے صدیوں کے مسائل سے باہر آگیا‘ حیوڑے بازار کی آبادی اس وقت بارہ سو لوگوں پر مشتمل ہے‘ گاﺅں میں کل 236 خاندان ہیں‘ یہ تمام لوگ خوش حال بھی ہیں‘ خود مختار بھی اور صحت مند بھی۔ گاﺅں کے 60 خاندان لکھ پتی ہیں‘ ان 60 خاندانوں کے پاس اپنے ٹریکٹر‘ اپنی گاڑیاں اور ذاتی پکے مکان ہیں‘ گاﺅں کے تمام خاندان ذاتی گھروں‘ ذاتی مال مویشیوں اور سال بھر کے ذاتی اناج کے مالک بھی ہیں‘ گاﺅں میں آج سکول بھی ہیں‘ ہسپتال بھی‘پکی سڑکیں بھی‘ سیوریج سسٹم بھی‘ پارک بھی اور مارکیٹ بھی‘ حیوڑے بازار کی فی کس آمدنی 450 امریکی ڈالر ہے اور یہ بھارت کے 21 لاکھ دیہات میں سب سے زیادہ آمدنی ہے‘ بھارتی حکومت نے پوپٹ راﺅ کے گاﺅں کو 2016ءکے شروع میں بھارت کے امیر ترین گاﺅں کا ٹائیٹل دے دیا‘پوپٹ اور اس کا گاﺅں اس اعزار کے ساتھ ہی پوری دنیا میں مشہور ہوگیا۔
یہ بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ایک گاﺅں حیوڑے بازار کی کہانی ہے‘ یہ گاﺅں احمد نگر سے 20کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اس وقت اس کے تمام باشندے خوشحال‘مطمئن اور صحت مند زندگی گزار رہے ہیں‘ حیوڑے اور حیوڑے کے سردار پوپٹ راﺅ کی کہانی کیا ثابت کرتی ہے؟ یہ کہانی ثابت کرتی ہے جب ملک یا ریاستیں وسائل کی کمی یا نظام کی خرابی کی وجہ سے عام لوگوں کے مسائل حل نہ کر سکیں تو پھر یہ ذمہ داری پوپٹ راﺅ جیسے لوگوں کواٹھانا پڑتی ہے‘ ان کو اپنے عوام‘ اپنے لوگوں کی مدد کےلئے آگے بڑھنا پڑتا ہے اوریہ لوگ اگر آگے بڑھ جائیں‘ یہ اگر اپنے لوگوں کو متحرک کر لیں‘ یہ اگر ان کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہو جائیں ”یہ زندگی آپ کی ہے‘ اس زندگی کے تمام مسائل بھی آپ کے ہیں اور ان مسائل کے حل بھی بہرحال آپ ہی نے تلاش کرنے ہیں“ یہ لوگ اگر عوام کو یہ ادراک دینے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر نشے‘ جرائم اور بیماریوں کے شکار حیوڑے بازار‘ ماڈرن اور ترقی یافتہ حیوڑے بازار بنتے دیر نہیں لگاتے‘ مسائل اور مصائب کے شکار لوگ اپنا راستہ خود تراش لیتے ہیں‘ یہ زندگی کی کٹھن راہوں کو اپنے لئے آسان اور ہموار بنا لیتے ہیں۔
ہم پاکستانی حیوڑے بازار کے اس ماڈل سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں‘ پاکستان کی آبادی بیس کروڑ ہے‘ ان بیس کروڑ لوگوں میں سے صرف دو کروڑ لوگ کام کرتے ہیں‘ ان میں بھی پڑھے لکھے اور ہنر مند لوگوں کی تعداد ستر لاکھ سے زیادہ نہیں‘ ان ستر لاکھ یا دو کروڑ لوگوں میں سے صرف ساڑھے آٹھ لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں‘ گویا بیس کروڑ لوگوں کا بوجھ یہ ساڑھے آٹھ لاکھ‘ یہ ستر لاکھ اور یہ دو کروڑ لوگ اٹھا رہے ہیں‘ باقی ساری آبادی آرام کرتی ہے‘ پاکستان سے تیل‘ سونا اور یورینیم بھی نہیں نکلتی کہ ریاست یہ معدنی دولت بیچ کر پہلے بیس کروڑ لوگوںکو مفت رہائش‘ تعلیم‘ صحت‘ پانی‘ پارک‘ کھانا‘ سڑک‘گلی اور سیوریج دے دے اور اس کے بعد ملک کے تمام ریلوے کراسنگ پر پھاٹک لگوا ئے‘ نہروں‘دریاﺅں اور سڑکوں کے ساتھ جنگلے بھی لگائے اور پھر ملک بھر کے تعلیمی اداروں کی حفاظت کا بندوبست بھی کر ے‘ ہماری حالت یہ ہے‘ ہمیں اگر کسی سال آئی ایم ایف کی قسط نہ ملے تو ہمارے لئے سود کی ادائیگی مشکل ہو جاتی ہے اور ہم ڈیفالٹ کے قریب پہنچ جاتے ہیں لیکن عوام ریاست سے توقع کرتے ہیں‘یہ ملک بھر کے دو لاکھ پچیس ہزار سکول اور کالجز‘148 یونیورسٹیوں(گورنمنٹ اور پرائیوٹ)‘98 میڈیکل کالجوں اور 12انجینئرنگ یونیورسٹیوںکو فوجی مورچہ بنا دے‘ یہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کو ”فول پروف“ سسٹم بنا دے‘ کیا یہ ممکن ہے؟ ہمارے تین بارڈر ایکٹو ہیں‘ ہمیں بھارت کی سرحد پر بھی فوج چاہیے‘ ہم افغانستان اور ایران کی سرحدوں پر بھی فوج تعینات کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور ہماری فوج قبائلی علاقوں میںبھی برسر پیکار ہے‘ ہم کراچی جیسے شہروں میں بھی امن قائم کرنے کےلئے باوردی فورس رکھنے پر مجبور ہیں‘ ہمیں زلزلوں‘ سیلاب اور الیکشن کےلئے بھی فوج چاہیے اور ہمیں اب وی وی آئی پیز کی حفاظت اور پروٹوکول کےلئے بھی فوج چاہیے‘ ہماری فوج صرف ہماری اندرونی ضروریات تک محدود نہیں بلکہ یو این کو بھی ہمارے فوجی درکار ہیں اور ہمارے سعودی عرب اور قطر جیسے اتحادیوں کو بھی پاک فوج کی ضرورت پڑتی رہتی ہے چنانچہ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے‘ کیاپاکستان جیسا ملک یہ ساری فوجی ضرورتیں پوری کر سکتا ہے؟ اور کیا ہم فوج کو سرحدوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپ سکتے ہیں‘ ہم اگر آج ملک کے تمام تعلیمی اداروں کی دیواریں اونچی کرنے یا ان پر کانٹے دار تار لگانے کا فیصلہ کریں تو ہم یہ کام دس سال میں بھی مکمل نہیں کر سکیںگے‘ کیوں؟ کیونکہ ہمیں اس کےلئے ملک کے کل بجٹ کے برابر رقم بھی چاہیے اور تکنیکی معاونت بھی اور ملک اس وقت ان دونوں شعبوں میں بری طرح مارکھا رہا ہے چنانچہ پھر ہمارے پاس کیا آپشن بچتا ہے؟ ہمارے پاس پوپٹ راﺅ ماڈل کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا‘ لوگوں کو یہ ماننا ہو گا‘ آرمی پبلک سکول ہو‘ باچا خان یونیورسٹی ہو یا پھر کراچی سے لے کر خیبر تک پھیلے ان جیسے دوسرے تعلیمی ادارے ہوں یہ سارے ادارے ہمارے اپنے ادارے ہیں اور ان اداروں میں پڑھنے والے بچے بھی ہمارے اپنے بچے ہیں اور ہم اگر اپنے ان بچوں کو دہشت گردوں سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے بچوں کے سکولوں کی دیواریں بھی خود بلند کرنا ہوں گی‘ ان پر خاردار تاریں بھی خود لگانا ہوںگی اور ان تعلیمی اداروں کی حفاظت بھی خود کرنا ہو گی‘ ہمیں اپنے شہروں‘ اپنے قصبوں میں پوپٹ راﺅ جیسے لوگ بھی سامنے لانا ہوں گے‘ ایسے لوگ جو لوگوں کومتحرک کریں‘ شہر میں فنڈ قائم کریں‘ گھرگھر‘ بازار بازار جا کر رقم جمع کریں‘ اس رقم سے سیمنٹ‘ بجری‘ریت اور سریا خریدیں‘ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو ایکٹو کریں‘ کسی اتوار کا دن طے کریں‘ تمام طالب علموں کو بلائیں اور یہ سب لوگ مل کر ایک ہی دن میں تمام سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی دیواریں اونچی کردیں‘ یہ ایک ایسی تکنیک ہے جس کے ذریعے ملک کے سارے تعلیمی اداروں کی دیواریں بھی ایک دن میں اونچی ہو جائیں گی اور ریاست بھی مالیاتی بوجھ سے بچ جائے گی۔
آپ اسی طرح اپنے بچوں کے تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کا بندوبست بھی کر سکتے ہیں‘ آپ سیکورٹی فنڈ بنائیں‘ سیکورٹی گارڈ رکھیں‘ پولیس اور فوج سے ان گارڈز کی ٹریننگ کا بندوبست کرائیں اور پھر ان گارڈز کو اپنے بچوں کے تعلیمی اداروں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپ دیں‘ یہ ممکن نہ ہو تو ہیڈ ماسٹر یا پرنسپل صاحب ایسے بچوں کے والدین کوبلائیں جو فوج یا پولیس سے تازہ تازہ ریٹائر ہوئے ہیں‘ یہ ان سے درخواست کریں ”آپ لوگ اس وقت تک تعلیمی ادارے کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھا لیں جب تک دہشت گردی کی یہ لہر جاری ہے یا جب تک حکومت تعلیمی اداروں کی حفاظت کا مناسب بندوبست نہیں کردیتی“ اس عارضی انتظام سے بھی بچے محفوظ ہو جائیںگے‘ حکومت اسی طرح پرائیویٹ تعلیمی اداروں کےلئے سیکورٹی سسٹم بھی بنائے‘ یہ سسٹم ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو ای میل کر دیا جائے‘ انہیں وقت دیا جائے‘ تعلیمی ادارے یہ سسٹم لگائیں‘ضلعی انتظامیہ اس کا معائنہ کرے اور اطمینان کے بعد تعلیمی اداروں کو سر ٹیفکیٹ جاری کرے‘ ادارے اس سر ٹیفکیٹ کی کاپی تمام والدین کو بھجوا دیں اور جو ادارہ وقت مقررہ پر یہ انتظامات نہ کرے‘ حکومت اسے سیل کر دے‘ یہ انتظام بھی بچوں کی حفاظت کےلئے ضروری ہے‘ ہم لوگ جب تک اپنے بچوں کو اپنے بچے نہیں سمجھیںگے‘ ہمارے بچوں کو اس وقت تک ریاست بھی اپنابچہ نہیں سمجھے گی‘ ہم نے بلاشبہ دشمن کے بچوں کوپڑھانا ہے لیکن ہم نے اس سے پہلے اپنے بچوں کو دشمن سے بھی بچانا ہے اور یہ شاید پوپٹ ماڈل کے بغیر ممکن نہ ہو۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…