ہمارا جگر کیا ہے اور یہ ہمارے لئے کیا کرتا ہے؟جگر ہمارے لئے خون بناتا ہے‘یہ ہمارے جسم کا اہم ترین عضو ہے‘ یہ کام چھوڑ دے یاخراب ہو جائے تو نیا خون بننا بند ہو جاتا ہے اور یوں انسان سسک سسک کر دم توڑ جاتا ہے‘ ہیپاٹائٹس سی ہمارے جگرکا دشمن ہے‘ یہ ایک وائرس ہے‘ یہ وائرس جگر میں پہنچ کر اسے تباہ کر دیتا ہے یہاں تک کہ ہمارا جگر ختم ہو جاتا ہے‘ ہم ہیپاٹائٹس سی کو عام زبان میں کالا یر قان کہتے ہیں‘ دنیا کے اڑھائی فیصد لوگ اس خوفناک مرض کا شکار ہیں‘ یہ مرض مصر میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے جبکہ پاکستان دوسرے نمبر پر آتا ہے‘ ہماری آٹھ سے دس فیصد آبادی کالے یرقان میں مبتلا ہے‘ یہ آٹھ سے دس فیصد لوگ کہاں پائے جاتے ہیں؟ یہ دیہات میں پائے جاتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ دیہات میں وہ سارا مٹیریل موجود ہے جس سے یہ وائرس پیدا بھی ہوتا ہے اور پھلتا پھولتا بھی ہے‘ دیہات میں سیوریج پینے کے پانی کے ذخائر میں مل رہے ہیں‘کیڑے مار ادویات کی بھر مار ہے‘ نائی ایک استرے سے پورے گاﺅں کی شیویں اور ٹنڈیں کر رہے ہیں‘جعلی ڈاکٹر مریضوں کوبیمار خون لگا رہے ہیں‘ معمولی امراض کے شکار لوگوں کو اندھا دھند ہیوی اینٹی بائیوٹک دی جارہی ہیں اور شادی بیاہ سے قبل لڑکے اور لڑکی کا میڈیکل چیک اپ جرم سمجھا جاتا ہے اور یہ وہ معاشرتی اور طبی خامیاں ہیں جن کی وجہ سے ملک میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں میں اضافہ ہو رہا ہے‘معاشرے کو ہیپاٹائٹس کے مریضوں سے کیا خطرہ ہے؟ یہ مریض اپنے‘ اپنے خاندان اور معاشرے تینوں کےلئے بوجھ بن جاتے ہیں‘ علاج انتہائی مہنگا ہے‘ یہ بیماری انسان کو لیورٹرانسپلانٹ تک لے جاتی ہے‘ جگر کی پیوند کاری پر کم از کم پچاس لاکھ روپے خرچ آتا ہے اور اس کےلئے ایک ایسے شخص کی ضرورت بھی ہوتی ہے جو مریض کو اپنا آدھا جگر عطیہ کر دے‘ خاندان کو لیور ٹرانسپلانٹ کے بعد دو مریضوں کا خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے‘ ایک وہ شخص جس کو جگر لگایا گیا اور ایک وہ شخص جس نے جگر عطیہ کیا چنانچہ جب کوئی شخص لیور ٹرانسپلانٹ کےلئے جاتا ہے تو وہ اکیلا ہوتا ہے لیکن واپسی پر خاندان کو دو مریض ملتے ہیں‘ لیور ٹرانسپلانٹ کے بعد مریض سال دو سال تک کام کے قابل بھی نہیں رہتا‘ یہ مریض معاشرے کےلئے ہیپاٹائٹس کے بینک بھی ثابت ہوتے ہیں‘ ایک مریض اوسطاً دس لوگوں میں بیماری پھیلنے کا باعث بنتا ہے‘ ماضی میں ہیپاٹائٹس کا علاج مہنگا بھی تھا اور مشکل بھی‘ انٹرفرون نام کا ایک انجیکشن آتا تھا‘ یہ انجیکشن 29 ہزار روپے میں ملتا تھا‘ مریض کو یہ ٹیکہ ہفتے میں ایک یا دو بار لگوانا پڑتا تھا‘ یہ ٹیکے چھ سے آٹھ مہینے تک لگوائے جاتے تھے‘ انٹرفرون کے بے شمار سائیڈ افیکٹس بھی تھے‘ مریض کے جسم میں توانائی ختم ہو جاتی تھی‘ دردیں بھی ہوتی ہیں اور مریض انجیکشن کے بعد دوتین دن تک کسی کام کے قابل بھی نہیں رہتا تھا‘ مریض علاج کے دوران دفتر اور فیکٹری نہیں جا سکتے تھے چنانچہ انٹرفرون مہنگا بھی تھا اور مریض کو سال بھر بستر سے بھی لگائے رکھتا تھا لیکن پھر ہیپاٹائٹس سی کے علاج میں انقلاب آ گیا۔
امریکا کی ایک کمپنی جیلڈ سائنسز (Gilead Sciences ) نے ہیپاٹائٹس سی کی کھانے والی دواءبنا لی‘ یہ گولی ہے ‘ مریض یہ گولی پانی کے ایک گلاس کے ساتھ لیتے ہیں اور دفتر چلے جاتے ہیں‘ اس دواءکا کیمیائی یا طبی نام Sofosbuvir ہے‘جیلڈ سائنسز نے یہ دواءڈیڑھ سال پہلے متعارف کرا ئی‘ اس دواءنے تہلکہ مچا دیا‘ یہ انٹرفرون سے سستی تھی لیکن عام مریض کےلئے اس کے باوجود مہنگی تھی‘ امریکا میں 28 گولیوں کے ایک پیکٹ کی قیمت پاکستانی روپوں میں ایک لاکھ روپے تھی‘ یہ دواءپاکستان بھی آنے لگی‘ یہ پاکستان میں چھ ماہ پہلے تک 50 سے 60 ہزار روپے میں ملتی تھی لیکن مہنگی ہونے کے باوجود ضرورت مند یہ دواءخریدتے تھے‘ بات حکومت کے علم میں آئی‘ وزارت صحت نے دواءدرآمد کرنے والی کمپنی کو طلب کیا اور پاکستان میں اس کی قیمت 33 ہزار دو سو روپے طے کر دی‘ یہ بہت اچھا قدم تھا‘ اس سے ہزاروں مریضوں کو فائدہ ہوا‘ کمپنی دواءامپورٹ کرنے لگی‘ کمپنی ہر ماہ کروڑوں روپے کمانے لگی‘پاکستانی کمپنیوں کو علم ہوا تو انہوں نے یہ دواءپاکستان میں تیار کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ پاکستان کی مختلف کمپنیوں نے وزارت صحت میں اپلائی کیا‘ وزارت نے 14 کمپنیوں کو دواءبنانے کی اجازت دے دی‘ فارمولے کے مطابق لوکل کمپنیاں یہ دواء24ہزار روپے فی ڈبی فروخت کریں گی‘ یوں مریضوں کو نو ہزار روپے فی ڈبی فائدہ ہو گا‘ مریض اگر یہ دواءچھ ماہ استعمال کرتا ہے تو اسے 54 ہزار روپے کا فائدہ ہو جائے گا۔
یہ معاملہ یہاں تک درست تھا‘ ملک کے بیس لاکھ مریضوں کو فائدہ پہنچنا تھا لیکن پھر مفاد پرست لوگ مفاد کی آری لے کر میدان میں آ گئے اور یہ منصوبہ التواءکا شکار ہو گیا‘ کیسے؟ اس دواءکے دو سٹیک ہولڈرز ہیں‘ پہلا سٹیک ہولڈر دواءکا وہ امپورٹر ہے جو یہ دواءدرآمد بھی کرتا ہے اور اسے مارکیٹ میں 33 ہزار دو سو روپے میں فروخت بھی کر رہا ہے‘ مارکیٹ میں اس وقت اس کمپنی کی مناپلی ہے‘ ملک میں جب 14 کمپنیاں یہ دواءبنائیں گی اور یہ دواءنو ہزار روپے سستی ہو گی تو آپ اندازہ کیجئے‘ اس کمپنی کو کتنا نقصان ہو گا؟ پاکستان میں اگر دو تین ماہ یا سال چھ مہینے کےلئے دواءکی تیاری ملتوی ہو جاتی ہے تو اس کمپنی کو کتنے کروڑ روپے فائدہ ہو گا؟ آپ فرض کیجئے‘ ملک میں پانچ لاکھ لوگ یہ دواءاستعمال کر رہے ہیں ‘ آپ اس سے منافع اور آمدنی کا اندازہ لگا لیجئے‘ یہ امپورٹر ایک طاقتور وفاقی وزیر کے داماد ہیں چنانچہ آپ ان کے اثر و رسوخ کا اندازہ بھی لگا لیجئے‘ دوسرے سٹیک ہولڈرز 14 کمپنیاں ہیں‘ یہ کمپنیاں یہ دواء20 ہزار سے 24 ہزار روپے میں فروخت کرنا چاہتی تھیں‘یہ معاملہ اگر یہاں تک رہتا تو ٹھیک تھا لیکن پھر ایک تیسرا سٹیک ہولڈر بھی پیدا ہو گیا‘ اسلام آباد کی ایک کمپنی گلوبل فارما نے یہ دواءلاگت کی قیمت پر مارکیٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ گلوبل فارما کے مالک خواجہ اسد ہیں‘ ان کے دو بچے تھیلیسیمیا کے مریض ہیں چنانچہ یہ مریضوں کے دکھ اور مسائل کو سمجھتے ہیں‘ یہ تھیلیسیمیا سنٹر بھی چلا رہے ہیں‘ اس سنٹر میں روزانہ 25 بچوں کو مفت خون بھی لگایا جاتا ہے اورا دویات بھی فراہم کی جاتی ہیں لہٰذا امراض کے معاملے میں خواجہ اسد کی ہمدردیاں مریضوں کے ساتھ ہوتی ہیں‘ انہوں نے محسوس کیا‘ ہیپاٹائٹس سی کے مریض غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں‘ ان مریضوں سے منافع ظلم ہے چنانچہ انہوں نے یہ دواءلاگت کی قیمت پر مارکیٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا‘ یہ خبر نکل گئی‘جس کے بعد وہ 13 کمپنیاں جو یہ دواء20 سے 25 ہزار کے درمیان بیچنا چاہتی تھیں‘ وہ ایک سائیڈ پر کھڑی ہو گئیں اور وہ خواجہ اسد جس نے یہ دواءدس ہزار روپے میں مارکیٹ کرنے کا فیصلہ کیا‘ وہ ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا‘ اب مقابلہ دلچسپ ہے‘ ملک کے طاقتور ترین وفاقی وزیر کا داماد اس دواءکی تیاری کو زیادہ سے زیادہ دیر تک ملتوی رکھنا چاہتا ہے تا کہ یہ مناپلی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ منافع سمیٹ سکے اور 13 کمپنیاں اس کمپنی کو دواءسازی کے عمل سے باہر رکھنا چاہتی ہیں جو 40 فیصد قیمت پر دواءمارکیٹ کرنا چاہتی ہے لہٰذا ان دونوں گروپوں نے لابنگ کے ذریعے دواءبنانے کا عمل رکوا دیا‘ وفاقی حکومت نے ایک تین رکنی بورڈ بنا دیا‘ یہ بورڈ یہ جائزہ لے گا‘ وہ کمپنیاں جنہیں وزارت صحت نے یہ دواءبنانے کی اجازت دی ہے‘ کیاان کمپنیوں کے کاغذات پورے ہیں؟ اس بورڈ نے آخری اطلاعات تک 14 ادویات ساز کمپنیوں کو ہیپاٹائٹس سی کی دواءبنانے سے بھی روک دیا ہے اور اس عمل کے پیچھے موجود ہاتھ اس کارروائی سے دو فائدے اٹھانا چاہتے ہیں‘ اول‘یہ ہاتھ اس طاقتور ترین وزیر کے داماد کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں جو یہ دواءدرآمد کر رہا ہے اور درآمد سے ہر مہینے دس بیس کروڑ روپے کما رہا ہے‘ یہ بورڈ میٹنگز اور آ رہے ہیں‘ جا رہے ہیں‘ فلاں ممبر چھٹی پر چلا گیا اور فلاں ہڑتال ہو گئی اور اب یہاں حالات خراب ہو گئے ہیں جیسے بہانوں سے اس امپورٹر کے بینک بیلنس میں اضافہ کرتا رہے گا اور دوم یہ بورڈ شروع میں صرف ان کمپنیوں کو اجازت دے گا جو یہ دواءمہنگے داموں بنا کر بیچیں گی‘بورڈ سستی دواءبنانے والی کمپنیوں کی بروقت انسپکشن ہی نہیں کرے گا یوں چند کمپنیاں چند ماہ میں ارب پتی ہو جائیں گی‘ یہ کمپنیاں جب سرمایہ سمیٹ لیں گی تو پھر باقی کمپنیوں کو اجازت مل جائے گی۔
آپ اندازہ کیجئے‘ یہ لوگ کس قدر ظالم ہیں‘ یہ چند ارب روپے کے منافع کےلئے ان لاکھوں مریضوں کو سولی پر لٹکا دینا چاہتے ہیں جو روز بیماری کی تکلیف سہتے ہیں اور ان کے لواحقین ڈھور ڈنگر‘ زمین اور زیورات بیچ کر اپنے پیاروں کےلئے دواءکا بندوبست کرتے ہیں‘ ان مریضوں‘ ان 20 لاکھ مریضوں کی حکومت کہاں ہے؟ ان کا وزیراعظم کہاں ہے‘ ان کےلئے کون سوچے گا؟ آپ دواءایجاد کرنے والی کمپنی جیلڈ سائنسز کا حوصلہ دیکھئے‘ اس نے یہ دواءبنائی اور سال کے اندر اس کا مٹیریل پوری دنیا کےلئے عام کر دیا‘ دنیا کی جو کمپنی چاہے وہ یہ دواءبنابھی سکتی ہے اور مریضوں کو فراہم بھی کر سکتی ہے لیکن آپ ہمارے مفاد پرست گروپوں کا حوصلہ ملاحظہ کیجئے‘ یہ اپنے تھوڑے سے فائدے کےلئے مریض اور شفاءکے درمیان کھڑے ہو گئے ہیں‘ میری وزیراعظم سے درخواست ہے‘ آپ مداخلت کریں‘آپ بورڈ کو حکم جاری کریں‘ یہ ہفتے کے اندر انسپکشن مکمل کرے اور تمام کمپنیوں کو ایک ہی دن دواءبنانے کی اجازت دے تا کہ کوئی ایک یا دو کمپنیاں مریضوں کو منافع کی سولی پر نہ لٹکا سکےں اگر وزیراعظم نے مداخلت نہ کی تو مجھے خطرہ ہے‘ یہ لوگ ہیپاٹائٹس سی کے 20 لاکھ مریضوں کا قیمہ بنا کر کھا جائیں گے‘ یہ موت کو تجارت بنا کر مریضوں کی ہڈیاں تک نگل جائیں گے‘ہیپا ٹائٹس سی کے 20 لاکھ مریض ایک سیکنڈ کی توجہ کے منتظر ہیں‘ کیا وزیراعظم کے پاس ایک سیکنڈ ہے؟۔
وزیراعظم کی ایک سیکنڈکی توجہ
19
نومبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں