شارجہ(آن لائن)پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان حالیہ ٹیسٹ سیریز میں امپائرنگ خصوصاً ٹی وی امپائرز کے فیصلے موضوع بحث بنے رہے اور یہ سوال بار بار کیا جاتا رہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اتنی اہم سیریز نامکمل ٹیکنالوجی کے ساتھ کیوں کھیلی؟اس سیریز میں سنیکو میٹر اور ہاٹ سپاٹ ٹیکنالوجی موجود نہیں تھی۔ ان کے نہ ہونے سے متعدد فیصلوں پر سوالیہ نشان لگ گیا اور اس کا زیادہ نقصان پاکستانی ٹیم کو ہی پہنچا۔ابوظہبی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں مصباح الحق کو امپائر نے وکٹ کیپر کے ہاتھوں کیچ آو¿ٹ نہیں دیا لیکن ریویو پر ٹی وی امپائر روی نے انھیں آو¿ٹ دے دیا۔ اسی طرح دوسرے ٹیسٹ میں یونس خان نے سلپ میں جانی بیرسٹو کا کیچ لیا جسے ٹی وی امپائر روی نے آو¿ٹ نہیں دیا۔سنیکو میٹر اور ہاٹ سپاٹ ایک مہنگا نسخہ ہے جس کا یومیہ خرچ ہزاروں پاو¿نڈز ہے، ظاہر ہے کہ ہر کرکٹ بورڈ اس کا متحمل نہیں کرسکتا۔چونکہ آئی سی سی بین الاقوامی کرکٹ کا نگراں ادارہ ہے لہذا اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ کوئی ایسا راستہ تلاش کرے کہ اہم سیریز میں ڈی آر ایس مکمل ٹیکنالوجی کے ساتھ استعمال ہو۔آئی سی سی ہر معاملے کو دو طرفہ کہتے ہوئے ذمہ داری کرکٹ بورڈز پر ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوسکتی اسے اگر دنیا بھر میں امپائرنگ کا یکساں معیار قائم کرنا ہے تو اپنا کردار بھی ادا کرنا ہوگا۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ٹیکنالوجی کا استعمال مکمل ہونا چاہیے۔مصباح الحق امپائرنگ کے معیار میں مزید بہتری بھی چاہتے ہیں۔ انھوں نے خاص کر امپائرز کال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں کپتانوں اور کھلاڑیوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا ہو رہے ہیں۔ لہذا اس پر ازسر نو سوچنے کی ضرورت ہے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کوچ وقار یونس کے لیے بھی نامکمل ڈی آر ایس قابل قبول نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ڈی آر ایس یا تو مکمل طریقے سے ہو یا پھر نہ ہو۔ کیونکہ ادھوری ٹیکنالوجی کے فیصلے مشکوک بن جاتے ہیں اور ان پر لوگ شکایت کرتے ہیں۔وقاریونس کا کہنا ہے کہ امپائرز کال پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ موجودہ طریقہ کار میں شک کا مارجن 50 فیصد ہے جسے بڑھاکر 75 فیصد کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر گیند 25 فیصد بھی لائن پر ہے تو اس پر ایل بی ڈبلیو دیا ۔