تہران(نیوز ڈیسک)شام سے تہران واپس آنے والی میتوں کے تابوتوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔اتوار کو پاسدارانِ انقلاب کی جانب سے شام میں ہلاک ہونے والے دو افراد کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ حالیہ ہفتوں کے دوران یہ نماز جنازہ کی ادائیگی کا تازہ ترین واقعہ ہے۔پاسداران انقلاب کے کمانڈروں کا کہنا ہے کہ وہ شام میں دہشت گردی کے خلاف لڑ کر اپنے ملک کی حفاظت کر رہے ہیں جو تہران کی گلیوں تک پہنچ سکتی ہے۔مشکلات میں گھرے ہوئے شامی صدر کے لیے ایران کی حمایت کی قیمت خون اور پیسے کی صورت میں سامنے آ رہی ہے۔جب امریکہ کی جانب سے شام کی خانہ جنگی کو ختم کرنے کے مقصد کے تحت ایک نئے سیاسی عمل کی ابتدا کی دعوت دی گئی تو ایران نے اسے خوشی خوشی قبول کر لیا۔اگر جولائی میں جوہری معاہدہ نہ ہوتا تو ایران کو دعوت نہ دی جاتی۔ امریکہ اور اِس کے اتحادیوں نے اِس معاہدے کو شام کے مسئلے کا حصہ قرار دیا تھا۔امریکی صدر براک اوباما نے سعودی بادشاہ شاہ سلمان کو فون کر کے مذاکرات میں ایران کی شمولیت پر اعتراض دور کرنے کے لیے انھیں قائل کیا۔شام میں جاری خانہ جنگی کے ساڑھے چار سالوں کے دوران پہلی بار جمعے کو کئی اہم حریف اور حلیف ایک میز پر بیٹھے۔یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کی سربراہ فیدیریکا موگیرینی نے اِس کو تاریِخی اجلاس قرار دیا۔شام کے مذاکرات میں ایران کی شمولیت نے سخت گیر ایرانیوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔اْن کو خدشات ہیں کہ جوہری معاہدے کے باعث مغربی اثر و رسوخ کا راستہ روکنے کے لیے دروازے کھل جائیں گے اور اْنھیں نظر آ رہا ہے کہ مذاکرات میں ایران کی شمولیت پریشان کْن علامت ہے جس سے لگتا ہے کہ صدر حسن روحانی اسلامی انقلاب کے راستے سے ہٹ رہے ہیں۔یہ باتیں صرف اْن چند ہفتوں کے بعد سامنے آئی ہیں جب ایران کے سخت گیر سپریم رہنما آیت اللہ علی خمینی نے واضح کیا تھا کہ اب امریکہ سے کسی بھی مسئلے پر کوئی مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔اِس کے علاوہ سخت گیروں میں شام کے حوالے سے مذاکرات کے بارے میں اضطراب ہے جس میں بڑی مغربی طاقتوں، روس، چین، شام کے پڑوسی، سعودی عرب، قطر اور مصر کی شمولیت سے معمولی پیش رفت ہوئی ہے۔ایران سمیت تمام شرکا نے سیاسی عمل کے ساتھ جن نکات پر آگے بڑھنے پر اتفاق کیا ہے وہ یہ ہیں:
جنگ بندی کا آغاز نئی گورننگ باڈی کا قیام ایک نئے آئین کے ذریعے اقوام متحدہ کے زیر نگرانی صاف اور آزاد انتخابات کی راہ ہموار کرنا
ایران کے سخت گیروں کے لیے یہ ممکنہ سیاسی عمل کی جانب قدم بڑھانے کا خاکہ ہے۔
اْنھوں نے وزیر خارجہ جواد ظریف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ جس کو وہ سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں، اْسی سے کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں، یعنی کہ مسلح تنظیموں کے ساتھ لڑنے کی ضرورت جن کو مغرب اعتدال پسند فورسز کہہ کر پیش کر رہا ہے۔نائب وزیر خارجہ عامر عبدالحئین، جو کہ خطے کی سیاست میں ایران کی نمائندگی کرتے ہیں، کا کہنا ہے کہ ’ہم نے مذاکرات میں شام کے سیاسی مستقبل کو فروخت نہیں کیا۔‘تاہم ویانا میں مذاکرات کاروں نے مسئلے کے جس حل پر اتفاق کیا وہ صدر اسد کی حیثیت تھی۔کچھ لوگ جنگ بندی کے فوراً بعد اْن کی روانگی چاہتے تھے۔ لیکن ایران اِس بات پر بضد تھا کہ اْن کو انتخابات اور کسی بھی عبوری عمل کے اختتام تک رکنا چاہیے۔ظریف کا کہنا ہے کہ ’اِس کا فیصلہ شام کے عوام ہی کر سکتے ہیں۔‘شام نے ایران کو جنوبی لبنان تک رسائی فراہم کی، جہاں ایران کے شیعہ عوام اور حزب اللہ سے گہرے تعلقات ہیں۔شامی صدر اسد کے اقتدار کو بچانے کے لیے ایران کی پالیسیوں پر تہران میں بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ اتنے لوگوں کا خون بہانے کا ذمہ دار ہونے کے بعد وہ اِس قابل نہیں کہ اِس عہدے پر رہیں۔شام کے معاملے پر عالمی طاقتوں کے درمیان نئے مذاکرات دو ہفتوں میں ہونا ہیں۔لیکن اپنے گھر میں پریشانیوں کے باوجود تہران شامی صدر کو چھوڑنے کے لیے کسی صورت راضی نہیں ہے کیونکہ اْس کو ڈر ہے کہ شام میں نئی حکومت ایران کے لیے مفاہمت پسند نہیں ہو گی۔ایران کے لیے یہ ضروری ہے کہ اْس کا اتحادی روس صدر اسد کی حمایت جاری رکھے۔تو جب تک روس کی حمایت حاصل ہے، ایران کے سخت گیروں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ تہران اپنی سمت تبدیل کر دے گا۔اسی وجہ سے ویانا میں مذاکرات کی میز پر موجود افراد میں سے کئی نے اس شبے کا اظہار کیا کہ ایران صرف بشار الاسد کو بچانے کیلیے مذاکرات میں شریک ہوا ہے۔