اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسانی نے کیپیٹل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر سیف اللہ پر نابالغ طالبہ کو ہراساں کرنے کا الزام ثابت ہونے پر ایک لاکھ روپے کا ہرجانہ عائد کر دیا ہے۔
یہ شکایت مارچ 2025 میں ایک 17 سالہ اے لیول کی طالبہ کے والد کی جانب سے دائر کی گئی تھی، جنہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اضافی تعلیم کے لیے نومبر 2024 سے ڈاکٹر سیف اللہ کو ہوم ٹیوٹر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ تاہم، فروری اور مارچ میں والدین کے بیرونِ ملک ہونے کے دوران، طالبہ نے اپنی والدہ کو آگاہ کیا کہ ٹیوٹر نے غیر مناسب رویہ اختیار کیا ہے۔
طالبہ نے الزام لگایا کہ ڈاکٹر سیف اللہ نے نہ صرف اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی بلکہ غیر اخلاقی ذاتی نوعیت کی باتیں کیں اور دوستانہ تعلقات پر زور دیا۔ مزید تفتیش کے دوران، متاثرہ طالبہ نے واٹس ایپ پر موصول ہونے والے پیغامات کے اسکرین شاٹس بھی پیش کیے، جن میں واضح طور پر غیر پیشہ ورانہ اور نازیبا جملے شامل تھے، جیسے:
-
“چونکہ تم میرے لیے خاص ہو گئی ہو”
-
“پڑھو، جواب دو اور میسج ڈیلیٹ کر دو، اوکے؟”
-
“منگل کو میرے گھر سے جانے کے بعد تمہیں ہماری دوستی کیسی لگی؟”
-
“شکریہ مت کہو… مجھے شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ تم میری پیاری دوست بنی”
ڈاکٹر سیف اللہ نے ان الزامات کو جھوٹا اور بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے صرف تعلیمی دباؤ کم کرنے کی نیت سے طالبہ کو حوصلہ دینے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی، اس نے تسلیم کیا کہ وہ پیغامات اس کی جانب سے بھیجے گئے تھے، لیکن ان کا مطلب منفی نہ تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ شکایت اس لیے دائر کی گئی کیونکہ اس نے ہر روز ٹیوشن پڑھانے اور فیس کم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
تاہم، محتسب نے فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ شکایت کنندہ کی طرف سے دی گئی شہادت، حلف نامہ، اور فراہم کردہ دستاویزات، بالخصوص واٹس ایپ پیغامات، کافی اور معتبر ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ اگرچہ متاثرہ لڑکی عدالت میں پیش نہ ہوئی، لیکن اس کے بیانات اور شواہد قابلِ اعتبار سمجھے گئے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ یہ کیس خواتین کو کام کی جگہ پر ہراساں کرنے سے تحفظ کے قانون 2010 کے تحت جرم کے زمرے میں آتا ہے، اور ملزم کو دفعہ 4(4)(ii)(d) کے تحت سزا دی گئی ہے۔
ڈاکٹر سیف اللہ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ متاثرہ طالبہ اور اس کے خاندان کو دس لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرے، جس میں قانونی اخراجات اور ذہنی و جذباتی اذیت کا ازالہ شامل ہے۔
ساتھ ہی، محتسب نے یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی ہدایت جاری کی ہے کہ:
-
انسدادِ ہراسانی کمیٹی فوری تشکیل دی جائے،
-
انسدادِ ہراسانی ضابطہ اخلاق کیمپس میں نمایاں طور پر آویزاں کیا جائے،
-
اور طلباء، اساتذہ و عملے کے لیے آگاہی سیشنز اور ورکشاپس کا باقاعدہ انعقاد کیا جائے۔