منگل‬‮ ، 26 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

برطانوی خاتون کی انسانیت کےلئے قابل تقلید مثال

datetime 19  اکتوبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لندن(نیوزڈ یسک )سوشل میڈیا کا ہماری زندگی کے معاملات پر کتنا گہرا اثر و رسوخ ہے۔ اس کی ایک مثال ہے برطانیہ کی ایک ایسی خاتون جس نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک اپیل سے متاثر ہو کر ایک اجنبی عورت کو اپنا ایک گردہ عطیہ کر کے انسانیت کی ایک مثال قائم کی ہے۔چھبیس سالہ اسٹیسی تین چھوٹے بچوں کی ماں ہے وہ گردوں کے ایک دائمی مرض میں مبتلا تھی اور گردوں کے فیل ہو جانے کی وجہ سے سخت علیل اور زیادہ چلنے پھرنے سے معذور تھی۔اسٹیسی کے والد کی جانب سے فیس بک پر گردے کے عطیہ کی اپیل کی گئی جس کو پڑھنے کے بعد لوئیس جو خود دو بچوں کی ماں ہیں انھوں نے اسٹیسی کو اپنا ایک گردہ عطیہ کرنے کی پیشکش کی۔اسٹیسی کے والد ڈیرن نے مایوسی کی حالت میں اپنی بیٹی کی زندگی بچانے کی ایک کوشش کے طور پر یہ فیس بک پر پیغام شائع کیا کہ کیا کوئی ایسا ہے جو میری بیٹی کی مدد کرنے کے لیے ایک گردہ عطیہ کرنا چاہتا ہے، اسے جتنی جلدی ممکن ہو سکے گردوں کی پیوند کاری کی ضرورت ہے۔اگر اسے گردے کا عطیہ نہیں ملتا تو شاید زندگی بھر اسے ڈائلیسسز کی ضرورت پڑتی اس کے ماں باپ اسٹیسی کے لیے مناسب عطیہ دہندگان نہیں تھے جبکہ عطیہ کے خواہش مند افراد کی فہرست میں اسے اوسطاً تین برس کا انتظار کرنا پڑتا ہے جبکہ خاندان والوں کو ڈر تھا کہ اسٹیسی اتنا طویل انتظار نہیں کر سکتی ہے لیکن یہ اسٹیسی کی خوش بختی تھی کہ اسے لوئیس جیسی نیک دل خاتون کی طرف سے گردہ کا تحفہ مل گیا، جس کے بعد نیو کاسل کے فری مین اسپتال میں گردے کی پیوند کاری کا آپریشن کامیاب رہا۔لوئیس کا کہنا تھا کہ اس روز میں اور میرے شوہر رات کو کھانے کے بعد صوفے پر بیٹھے تھے اور ہم فیس بک دیکھ رہے تھے کہ میری نظر اس اپیل پر پڑی اور میں نے طے کر لیا کہ میں اس لڑکی کی مدد کر سکتی ہوں تاہم 13 ماہ تک مختلف ٹیسٹ مکمل ہونے کے بعد اسٹیسی سے لوئیس کا گردہ میچ کر گیا اور ڈاکٹروں نے لوئیس کو ایک مناسب عطیہ دہندہ قرار دے دیا۔لوئیس نے بتایا کہ لوگ مجھ سے پوچھتے تھے کہ کیا وہ تمھارے خاندان سے ہے یا دوستوں میں سے ہے لیکن، میں انھیں بتاتی تھی کہ وہ ایک اجنبی لڑکی ہے تو وہ حیران ہو جاتے تھے۔انھوں نے کہا کہ جیسے جیسے آپریشن کا وقت قریب آ رہا تھا مجھے اپنی قربانی سے کچھ ڈر لگ رہا تھا کہ اگر مجھے بے ہوشی کے بعد دوبارہ ہوش نہیں آیا تو میرے بچے اپنی ماں سے محروم ہو سکتے ہیں لیکن پھر میں سوچتی تھی کہ میں یہ قدم ایک تین سالہ چھوٹے بچے کی ماں کو بچانے کے لیے اٹھا رہی ہوں۔اسٹیسی نے ذرائع سے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حیرت انگیز واقعہ ہے میرے پاس انھیں شکریہ کہنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں کیونکہ کسی کو اپنا ایک عضو تحفہ کرنے کے لیے بہت ہمت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسٹیسی نے کہا کہ مکمل طور پر اجنبی ہونے کے باوجود ہم ایک دوسرے کو بہت عزیز رکھتے ہیں۔ایک برطانوی ٹی وی چینل فائیو پر بدھ کے روز ایک شو میں اسٹیسی اور لوئیس کی کہانی نشر کی جائے گی۔



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…