اسلام آباد(این این آئی) سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس میں جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیاہے کہ اگر آرمڈفورسز کا کوئی شخص گھر بیٹھے کوئی جرم کرتا ہے تو کیا آرمی ایکٹ لگے گا؟اگر کسی فوجی جوان کا گھریلو مسئلہ ہے، اگر پہلی بیوی کی مرضی کے بغیر دوسری شادی کر لی جائے تو کیا دوسری شادی والے کو ملٹری کورٹ بھیجا جائے گا؟بدھ کو سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی جس دوران سزا یافتہ ملزم ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دئیے۔
سماعت میں سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس میں 2 مسائل ہیں، ایک آرٹیکل 175 کا مسئلہ ہے، جہاں تک بات بنیادی حقوق کی ہے تو دروازے بند نہیں ہوں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیاکہ اگربنیادی حقوق دستیاب نا ہوں اورکسی ایکٹ کے ساتھ ملالیں توکیا حقوق متاثر ہوں گے؟ آرمڈ فورسز کا کوئی شخص گھر بیٹھے کوئی جرم کرتا ہے تو کیا آرمی ایکٹ لگے گا؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ اگر کسی فوجی جوان کا گھریلو مسئلہ ہے، اگر پہلی بیوی کی مرضی کے بغیر دوسری شادی کر لی جائے تو کیا دوسری شادی والے کو ملٹری کورٹ بھیجا جائے گا؟ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیاکہ آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے،کوئی بھی ترمیم ہوئی تو بنیادی حقوق ختم ہو جائیں گے، قانون کے مطابق جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے ہونا ضروری ہے۔
سلمان اکرم نے کہاکہ مثال کے طور پر پنجاب میں پتنگ اڑانا منع ہے، پنجاب میں کوئی ملٹری اہلکار گھر میں پتنگ اڑاتا ہے تو ملٹری ٹرائل نہیں ہوگا بلکہ اس پر بھی سویلین والا قانون لاگو ہو گا۔ جسٹس نعیم اختر نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ برا نہ مانیے گا، آپ کی سیاسی جماعت کے دورمیں آرمی ایکٹ میں ایک ترمیم کی گئی، آپ کی سیاسی جماعت نے پارلیمنٹ میں بڑی گرمجوشی سے آرمی ایکٹ سے متعلق قانون سازی کی تھی، اس پر سلمان اکرم راجا نے کہاکہ میں اس وقت تحریک انصاف کا حصہ نہیں تھا، میں ہمیشہ اپوزیشن میں رہا ہوں۔سلمان اکرم راجا نے دلائل دئیے کہ 1975 میں ایف بی علی کیس میں پہلی دفعہ ٹو ون ڈی ون کا ذکر ہوا، اس پر جسٹس مظہر علی نے کہا کہ آرٹیکل ٹو ون ڈی کو ہر مرتبہ سپریم کورٹ کیوں دیکھے؟سلمان اکرم نے جواب دیاکہ لیگل فریم ورک تبدیل ہو جائے تو جوڈیشل ریویو کیا جاسکتا ہے، آرٹیکل آٹھ 3 کا استثنیٰ ٹو ون ڈی کے لیے دستیاب نہیں۔ جسٹس نعیم اختر نے ریمارکس دئیے کہ ٹو ون ڈی کیلئے 1967میں آرڈیننس لایا گیاجس کی ایک معیاد ہوتی ہے، کہیں ایسا تو نہیں آرڈیننس معیاد ختم ہونے پر متروک ہوگیا ہو؟ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیاکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 سے موجود ہے اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت 1967 سے قبل ٹرائل ہوتے رہے ہیں۔
جسٹس مندوخیل نے کہاکہ سول سروس میں کوئی شخص ایسا جرم کرتا ہے تو اسے نوکری سے نکالا جاتا ہے، سول سروس میں سزا دینے کا اختیار موجود نہیں ہے، آرمڈفورسز میں ایک طرف نوکری سینکالاجاتا ہے تو دوسری طرف سزا بھی دی جاتی ہے، آپ کو بتانا پڑے گا کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا کس پر ہے؟ ۔جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیاکہ اگر کوئی جاسوس پکڑا جاتا ہے تو اس کا ٹرائل کہاں کریں گے؟ جسٹس حسن اظہر نے پوچھا کہ کوئی شہری دشمن ملک کے ورغلانے پر راز انہیں دے تو اس کا ٹرائل کہاں ہوگا؟ سلمان اکرم نے جواب دیاکہ ٹرائل آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہوگاجس کا طریقہ کار موجود ہے۔
سلمان اکرم راجا نے کہاکہ میں آئین کے خلاف کوئی بات نہیں کروں گا، توڑمروڑ کر دلائل نہیں دوں گا، دنیا میں ایساکہیں نہیں ہوتا کہ آئین بنیادی حقوق دے اورکوئی انگلی کیاشارے سے چھین لے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کمانڈنگ آفیسر کہے مجھے ملزم چاہیے، اسے میرے حوالے کردو۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ 5 رکنی بینچ نے سیکشن ٹو ڈی ختم کردیا ہے، سیکشن ٹو ڈی ختم ہونے کے بعد جاسوس عناصر کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا، آرمی میں سول ملازمین بھی ہوتے ہیں، اگرسول ملازم کی آڑ میں دشمن ملک کے لیے جاسوسی کرے تو ٹرائل کہاں ہوگا؟ اس پر سلمان اکرم نے کہا کہ آرمی میں موجود سول ملازمین آرمی ایکٹ کے تابع ہوتے ہیں۔