ڈیرہ اسماعیل خان (این این آئی)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ دینی مدارس کے معاملے کو غیر ضروری طورپر الجھا دیا گیا ہے، ہمارا علما سے کوئی اختلاف نہیں ، ہماری شکایت صرف اور صرف ایوان صدر اور صدر مملکت سے ہے، حکومت کے منظور کردہ بل پر صدر نے اعتراض کیوں کیا؟۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آج کل سیاست میں مدارس کی رجسٹریشن پر بحث کی جارہی ہے، دینی مدارس کی رجسٹریشن کیلئے بل حکومت نے تیار کیا تھا، معاملے کو غیر ضروری طورپرالجھادیا گیا، جنہوں نے علما کو بلایا وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔
انہوں نے علما کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ہمارا کسی مدرسے، مدرسوں کی تنظیم یا علما سے اختلاف نہیں ہے، ہماری شکایت صرف ایوان صدر اور صدر مملکت سے ہے، آئینی ترمیم پر دستخط ہوگئے تو پھر اس بل پر دستخط کیوں روکے گئے؟انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئی غلطی نہیں کی، ہمارا ذمہ دار صرف ایوان صدر ہے، کیا صدر مملکت پارلیمان سے منظور کردہ بل پر 2 مرتبہ اعتراض بھیج سکتا ہے؟انہوں نے کہاکہ اگر کچھ مدارس ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن میں رجسٹریشن کرا رہے ہیں تو اس کا ملبہ ہم پر نہ گرایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ الیکشن سے پہلے جو ڈرافٹ لایا گیا اسے منظور کریں۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مدارس رجسٹریشن اور بینک اکاؤنٹس سے متعلق قانون دونوں ایوانوں سے اتفاق رائے سے منظور ہوئے، بل ڈرافٹ وزارت قانون نے تیار کیا جسے ہم نے قبول کیا، بل کی تیاری میں مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی دونوں شامل تھے، جن لوگوں نے قانون تیار کیا اب وہی اس قانون کیخلاف لوگوں کو ہمارے سامنے لارہے ہیں۔انہوںنے سوال اٹھایاکہ کیا صدر کے پاس کسی بل پر دوسری بار اعتراض پارلیمان کو بھیجنے کا اختیار ہے؟ کیا 10 دن صدر کے دستخط نہ کرنے سے وہ قانون خود بخود ایکٹ نہیں بن جاتا؟ ہمارا دعویٰ ہے کہ ایکٹ بن چکا ہے، صدر مملکت نے آئینی مدت میں بل پر دستخط نہیں کیے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وزارت تعلیم کا ڈائریکٹوریٹ مدارس کے معاملات میں مداخلت ہیں، بل بنانے والے ہی اسے متنازعہ بنا کر لوگوں کو بل کے خلاف اکسا رہے ہیں، ہمارے مؤقف کو تمام مکاتب فکر کی حمایت حاصل ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگر حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات ہورہے ہیں تو یہ اچھی بات ہے، خیبر پختونخوا میں بھی فارم 47 کی حکومت ہے۔