نیویارک (این این آئی)اقوام متحدہ کے عالمی امدادی فنڈ برائے اطفال (یونیسیف) نے افغان مہاجرین سمیت پاکستان میں کمزور آبادیوں کی زندگی کو تحفظ دینے کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کے لیے 14 کروڑ 9 لاکھ ڈالر کی اپیل کی ہے۔میڈیارپورٹ کے مطابق یونیسف کے اعلان کردہ امداد میں 4 کروڑ 16 لاکھ ڈالر کی رقم غذائی ایمرجنسی کے لیے شامل ہے، انسانی امداد کے لیے 5 کروڑ 98 لاکھ ڈالر، پناہ گزینوں اور میزبان کمیونٹی کی مدد کے لیے 3 کروڑ 45 لاکھ ڈالر، اور قدرتی آفات کے خطرات میں کمی اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے 50 لاکھ ڈالر شامل ہیں۔
ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کرتا ہے جن میں سے 49 فیصد بچے ہیں جن کی قانونی حیثیت مختلف ہے، جنہیں بنیادی سہولیات تک رسائی کی ضرورت ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک میں سے ایک ہے، جو خاص طور پر خواتین اور بچوں کے لیے خطرات کو نمایاں طور پر بڑھاتا ہے اور پاکستان میں بار بار آنے والے قدرتی آفات کی وجہ سے لوگوں کو بڑے پیمانے پر محرومیوں کا سامنا ہے۔موسمیاتی تبدیلیاں غذائی تحفظ میں خلل ڈالتی ہیں، جس کی وجہ سے خاص طور پر پسماندہ علاقوں میں غذائی قلت پیدا ہوتی ہے اور بچوں کی نشوونما رک جاتی ہے۔اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی، صنفی عدم امتیاز، غذائی عدم تحفظ، شدید غذائی قلت اور سیاسی و معاشی عدم استحکام کے باعث کئی طرح کے مسائل درپیش ہیں۔یاد رہے کہ شدید موسمیاتی خطرات کا سامنا کرنے والے ممالک میں پاکستان کا پانچواں درجہ ہے جہاں سیلاب اور گرمی کی لہروں کے ادوار اور ان کی تباہ کن نوعیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
سیلاب سیکڑوں کی تعداد میں خاندانوں کو بے گھر کرتا ہے، گھروں، اسکولوں اور صحت کی سہولیات کو تباہ کرتا ہے اور صاف پانی تک رسائی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے، جس سے بیماریوں کے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے۔ان تمام حالات کے باعث بچوں کی فلاح و بہبود اور ان کے مستقبل کو خطرہ لاحق ہے، آب و ہوا کی تبدیلی سے مطابقت رکھنے، آفات کے خطرے میں کمی کے لیے زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔2022 کے تباہ کن سیلاب نے 3 کروڑ 3 لاکھ کو متاثر کیا جن میں آدھی تعداد بچوں کی شامل ہے، اس سیلاب سے ہونے والی تباہی واضح ثبوت ہے کہ آفات کے اثرات کو کم کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے تاکہ آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کی کوششوں کو مزید بڑھایا جاسکے جو بچوں کی نشوونما اور ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔پاکستان شدید غذائی عدم تحفظ اور عالمی سطح پر غذائی قلت کی شرح میں مسلسل اضافے کا بھی سامنا کر رہا ہے۔
تقریباً 16 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے اور صحت کی دیکھ بھال اور غذائیت سمیت ضروری خدمات تک رسائی سے محروم ہے، خاص طور پر بچے غذائی قلت کے اثرات سے انتہائی متاثر ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں بچوں میں نشوونما کے مسائل اور کمزور مدافعتی نظام پیدا ہوسکتا ہے۔پاکستان میں غذائی قلت کی عالمی سطح پر شرح 17.7 فیصد ہے جس میں سے 16 فیصد ہنگامی حد سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ خواتین اور لڑکیوں کی غذائیت خاص طور پر تشویش کا باعث ہے کیونکہ غذائی قلت کی بلند شرح انہیں خطرے میں ڈالتی ہے جو پیدائش کے نتائج پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے،اگر غذائی مسائل کی اس طویل ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات نہیں کیے گئے تو 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے،پاکستان میں 4 دہائیوں سے زائد عرصے سے مقیم افغان آبادی کی موجودگی اور طویل قیام نے پہلے سے بوجھ تلے دبے نظام پر اضافی بوجھ ڈال دیا ہے۔غیر قانونی طور پر مقیم اور غیر دستاویزی افغان باشندوں کی وطن واپسی کی حکومتی کوششوں کے بارے میں جاری غیر یقینی صورتحال نے افغان آبادی میں غیر یقینی صورتحال میں اضافہ کر دیا ہے۔