نیویارک (این این آئی)پاکستان نے ایک بار پھر اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ وہ غزہ کی پٹی پر اپنی غیر قانونی اور غیرانسانی ناکہ بندی ختم کرے اور جاری اسرائیلی بمباری سے متاثرہ فلسطینی عوام کیلئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد تک بلا رکاوٹ رسائی کی اجازت دے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے نائب مستقل نمائندہ عثمان اقبال جدون نے گزشتہ روز اقتصادی اور مالیاتی امور سے متعلق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سیکنڈ کمیٹی میں بحث کے دوران کہا کہ فلسطینی عوام کو تحفظ اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری امداد کی ضرورت ہے اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کو روکنے کی ضرورت ہے۔
کمیٹی میں فلسطینی مبصر سحر ناصر ابوشاویش سمیت دیگر 34مقررین نے غزہ میں اسرائیلی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اسرائیل کی بمباری سے مقبوضہ فلسطینی علاقے خاص طور پر غزہ کی پٹی میں تباہ کن، خوفناک اور ناقابل تصور صورتحال کا سامنا ہے۔ فلسطینی مبصر نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطین کی شہریوں آبادی کے خلاف حالیہ اعلان جنگ نے اس کی طرف سے ان آبادیوں کوپانی ، ایندھن اور بجلی کی فراہمی مکمل طور پربند کردینے سے پیدا ہونے والے صورتحال کو مزید بد تر بنا دیا ہے اور اب یہ صورتحال انسانی اور ماحولیاتی تباہی کی صورت اختیار کر چکی ہے۔پاکستانی سفیر جدون نے کہا کہ پاکستان محصور اور بے سہارا فلسطینی عوام کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم غزہ میں ضرورت مند فلسطینی شہریوں تک ضروری سامان پہنچانے کیلئے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ پاکستانی مندوب نے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اسرائیل کے غیر قانونی اقدامات، تشویشناک اور سنگین سکیورٹی اور انسانی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے غزہ اور اس کے آس پاس کے علاقے میں 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو جنوب میں نقل مکانی کا حکم دیا ہے جو بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے یہ اقدامات جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سنگین غیر یقینی صورتحال عالمی برادری کی فوری مداخلت کا تقاضا کرتی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ غزہ میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال میں کمی لانے کے لیے جنگ بندی میں سہولت کاری کے لیے فعال کردار ادا کرے۔ عالمی برادری کو ایک منصفانہ، جامع اور دیرپا دو ریاستی حل اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مشتمل ایک قابل عمل، خودمختار اور متصل ریاست فلسطین کے قیام کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔