اسلام آباد (این این آئی)پارلیمنٹ کے مشتر کہ اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف کے شدید احتجاج اور شور شرابہ کے دور ان سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل اور ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات کروانے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی ، پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹرز نے بل کی کاپیاں پھاڑ کر اسپیکر کی جانب اچھال دیں
اور اسپیکر ڈائس کا گھیرائو کرتے ہوئے مسلسل نعرے بازی کرتے رہے جبکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے صدر مملکت عارف علوی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ریاست کے سربراہ کے طور پر کام کریں، اپنی جماعت کے کارکن کے طور پر کام نہ کریں،صدر تعصب کی عینک اتار کر بل کو پڑھ لیتے، سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کا تعین بھی ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ہوتا ہے۔ پیر کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت ہوا جس میں اسپیکر راجا پرویز اشرف نے ارکان سے رائے شماری کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی شق وار منظوری دی۔اس دوران تحریک انصاف کے سینیٹرز نے بل کی کاپیاں پھاڑ کر اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی جانب اچھال دیں اور سپیکر ڈائس کا گھیرائوکرتے ہوئے مسلسل نعرے بازی کرتے رہے ۔اس موقع پر اسپیکر نے ہدایت کی کہ ایوان کے اندر تصویریں نہ بنائی جائیں، یہ عمل یہاں نہیں کیا جاسکتا۔ایوان میں مسلم لیگ (ن )کی رکن شزا فاطمہ خواجہ نے ترمیم پیش کی ترمیم میں کہا گیا کہ قانون منظور ہونے کے بعد ججز کمیٹی کا پہلا اجلاس قواعد و ضوابط طے کرنے کیلئے بلایا جائے گا۔ترمیم کے مطابق جب تک ججز کمیٹی رولز نہیں بنالے گی اس وقت تک چیف جسٹس یا کوئی بھی جج میٹنگ بلاسکتا ہے، پہلے اجلاس کے بعد اگلے اجلاس کوئی دو جج بھی بلاسکیں گے۔اس موقع پر خطاب میں وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ صدر نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل واپس بھیج دیا۔
انہوں نے کہا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ریاست کے سربراہ کے طور پر کام کریں، وہ اپنی جماعت کے کارکن کے طور پر کام نہ کریں۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ دونوں ایوانوں نے اس بل پر بحث کی ہے، سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کا تعین بھی ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ہوتا ہے۔انہوں نے کہاکہ صدر مملکت نے اپنے خط میں سوالات اٹھائے ہیں،
انہوں نے خط میں نامناسب الفاظ استعمال کیے، وہ تعصب کی عینک پہن کر جماعت کی سروس شروع کر دیتے ہیں۔وزیر قانون نے کہا کہ بل پارلیمان کی صوابدید ہے، صدر کے ایسے الفاظ مناسب نہیں، صدر اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کریں کسی سیاسی جماعت کے رکن نہ بنیں۔انہوں نے کہا کہ صدر تعصب کی عینک اتار کر بل کو پڑھ لیتے، سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کا تعین بھی ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ہوتا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ صدر نے جو اعتراض اٹھائے ہیں اس میں قابل اعتراض الفاظ شامل ہیں، صدر نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے نامناسب الفاظ استعمال کیے ہیں۔انہوںنے کہاکہ صدر آئین اور قانون کی پاسداری کی بجائے جماعت کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں، آرٹیکل191 کے الفاظ بڑے واضح ہیں، پارلیمنٹ قانون بناسکتی ہے۔وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں اضافہ کیا ہے،
یہ رولز 1980 کی دہائی میں بنائے گئے جب آمرانہ دور تھا، میری ایوان سے درخواست ہے کہ اس بل کو منظور کیا جائے۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کروانے کی قرارداد منظور کرلی گئی۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قرارداد وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور مرتضیٰ جاوید عباسی نے پیش کی۔قرارداد کے متن کے مطابق ایوان سمجھتا ہے کہ معاشی استحکام سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں، اس ایوان کی رائے میں آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت پورے ملک میں تمام صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات بیک وقت عام انتخابات کی صورت میں ہونا لازم ہے،
مزید یہ کہ آرٹیکل 224 کے تحت جنرل انتخابات پورے ملک میں بیک وقت عام انتخابات غیر جانبدار نگران حکومتوں کی نگرانی میں کروائے جائیں۔قرارداد میں کہا گیا کہ ایوان سمجھتا ہے کہ پنجاب کا صوبہ جس میں قومی اسمبلی کی نصف نشستیں آتی ہیں، اس صوبے میں باقی صوبوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات سے پہلے الیکشن کروانے سے پنجاب کے انتخابی نتائج پورے ملک کے انتخابات پر اثرانداز ہوں گے، پنجاب میں پہلے انتخابات سے پورے ملک میں شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوگا اور اس سے دیگر صوبوں کے لوگوں کا استحصال ہوگا لہٰذا ایوان قرار دیتا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کروائے جائیں۔بعدازاں قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔