اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللّٰہ نے کہا ہے کہ جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں افسوسناک بات لکھی ہے،یہ صورتحال انتہائی افسوسناک اور قومی سانحے سے کم نہیں، ایک معزز جج پہلے بینچ سے علیحدہ ہوئے اور پھر بینچ کا حصہ ہیں،یہ بینچ 9 سے شروع ہو کر 3 پر آگیا ہے،انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے،
اگر فل بینچ اس معاملے کا فیصلہ نہیں کریگا تو انصاف ہوتا نظر نہیں آئے گا، آپ انارکی کا حصہ نہ بنیں، فل بینچ بنائیں،ایک فتنے نے ملک کو اس نہج پر لا کھڑا کیا ہے، سیاسی، انتظامی طور پر بحران ہے اور اب جوڈیشری کو بھی لا کھڑا کیا ہے،اس فتنے کی دھونس، تکبر، ضد یا ایجنڈا تھا جس نے اسمبلی توڑی، اس فتنے کا پاکستان کی سیاست سے مائنس ہونا بہت ضروری ہے۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں جو باتیں لکھی ہیں وہ اس لیے انتہائی افسوس ناک ہیں کہ اعلیٰ ترین منصب پر بیٹھے لوگ ایسے رویوں کا اظہار کریں گے جس کا ذکر انہوں نے کیا مثلاً مشاورت نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کی بات سامنے آنا قانونی برادری کیلئے المیہ ہے اور دوسرا المیہ یہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے از خود نوٹس پر دیے گئے فیصلے کو سرکلر کے ذریعے مسترد کردیا گیا۔وزیر داخلہ نے کہا کہ ایک فرد واحد جو فتنہ ہے وہ 10 سال کی محنت کے بعد ملک کو اس نہج پر لے آیا ہے کہ یہاں سیاسی طور پر بحران، انتظامی طور پر بحران اور اب عدلیہ کو بھی اس نے بحران میں مبتلا کردیا ہے۔انہوںنے کہاکہ اگر قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس نہ دائر کیا جاتا ان کے اہلِخانہ کو انہیں عدالتوں،ایف بی آر کی عمارتوں میں رلایا نہ جاتا تو ملک میں یہ بحرانی کیفیت نہیں پیدا ہوتی جو اس وقت موجود ہے۔انہوں نے کہاکہ میں چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ
اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ یہ فتنہ کس طرح ملک میں متعارف ہوا اور کس طرح ملک اور اس کے اداروں کو بحران در بحران کا شکار کررہا ہے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ چاہتا ہے کہ اس ملک میں افراتفری و انارکی ہو، اس بات کا جائزہ لیں کہ اس نے جو کچھ 10 سال میں کیا بالخصوص اسمبلیاں توڑنے کے پیچھے کون ہے،یہ اسمبلیاں آئینی طور پر نہیں توڑی گئیں،
دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور اراکین کہتے رہے کہ ہم نے نہیں توڑنی لیکن یہ اس کا تکبر اس کی ضد تھی کہ اسمبلیاں توڑی گئیں۔انہوںنے کہاکہ جب 9 رکنی بینچ بیٹھا تھا تو ایک معزز جج نے یہ معاملہ اٹھایا بھی تھا اس لیے میں تمام ججز سے بالعموم اور بالخصوص چیف جسٹس سے اپیل کروں گا کہ انصاف ہونا نہیں بلکہ انصاف ہوتے ہوئے نظر آنا چاہیے۔انہوںنے کہاکہ موجودہ صورتحال میں اگر فل کورٹ بیٹھ کر اس معاملے کا فیصلہ نہیں کرے گا تو اس صورت میں انصاف تو شاید ہو لیکن انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آئے گا اور قوم کو اگر اس مرحلے پر انصاف ہوتا نظر نہیں آیا تو ملک میں افراتفری پھیلے گی۔