زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کر کے پراپرٹی خریدنے والوں کی کیسے مدد کی جا سکتی ہے؟
زمین کی ملکیت کے لیئے تگ و دو ترقی پذیر ممالک میں ایک مشکل کام ہے جہاں سر چھپانے کے لیئے چھت کا ہونا کسی نعمت سے کم نہیں۔ پاکستان کا شمار بھی ایسے ہی ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے جہاں زمین کی ملکیت کی صورتِ حال لینڈ ریکارڈ سسٹم کی غیرموجودگی میں مشکلات کا شکار ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ زمینوں کا ریکارڈ مرتب کرنے اور محصولات کی وصولی کا طریقہ کار فرسودہ ہوچکا ہے۔ لیکن اب لگ رہا ہے کہ صورتِ حال بہتری کی طرف مائل ہے کیونکہ صوبوں کی طرف سے لینڈ ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کرنے کے لیئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔حالیہ دنوں خیبر پختونخواء اور پنجاب نے کمپیوٹرائزیشن کی جانب قدم بڑھائے ہیں۔ اس اقدام سے زمین کی خریداری اور بیچنے کے دوران جن مسائل کا سامنا کیا جاتا ہے ان سے بھی چھٹکارہ ملے گا۔ آئیے ملک کی سب سے بڑی رئیل اسٹیٹ پورٹل زمین ڈاٹ کام کی مدد سے ہم لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن کے ثمرات سے آپ کو آگاہ کریں۔ تنازعات کا خاتمہشفاف اور قابلِ رسائی نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے ملکیت کے کاغذات میں نقائص پائے جاتے ہیں جو لوگوں میں تنازعات کو جنم دیتے ہیں۔ اپنی جائز پراپرٹی کی ملکیت ثابت کرنے کے لیئے لوگ اپنا قیمتی وقت اور سرمایہ لٹانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن شفافیت لے کر آئے گی جس سے تنازعات میں بھی کمی ہوگی۔ غیر ضروری قانونی چارہ جوئی کا خاتمہپاکستان میں زمین کے تنازعات سے متعلق لاکھوں کیسز عدالتوں میں التواء کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ عدالتی نظام پر نہ صرف غیرضروری دباؤ بڑھتا ہے بلکہ یہ کیسز ضروری مقدمات کی راہ میں بھی حائل ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں زمینوں کے مقدمے سالہاسال تک چلتے ہیں جس کے بعد بھی یہ گارنٹی نہیں دی جاسکتی کہ مسئلے کا پرامن حل نکل آئے گا۔ التواء کا شکار مقدمات عام آدمی کے مسائل میں اضافے کا سبب بنتے ہیں اور ان میں سے بیشتر ایک اچھے وکیل کی فِیس بھی ادا نہیں کرسکتے۔ لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن سے ان مقدمات کا حل بھی جلد نکال لیا جائے گا۔ رشوت ستانی کا خاتمہلینڈ کمپیوٹرائزیشن کا نظام متعارف کروائے جانے کے بعد رشوت خور افسران کے لیئے صورتِ حال یکسر بدل گئی ہے۔ غیرجانبدار اور شفاف سسٹم کی مدد سے صارفین کو پراپرٹی کی ملکیت اور ٹرانسفر کے دوران رشوت جیسی لعنت سے چھٹکارہ ملے گا۔ پٹواری کلچر کا خاتمہپاکستان میں زمین کا ریکارڈ پٹواری مرتب کرتے ہیں۔ روایتی طور پر پٹواری کا سارے عمل پر مکمل کنٹرول رہا ہے۔ زرعی ریونیو، ملکیتی ریکارڈ، زمین کی خرید و منتقلی اور تمام لینڈ ریکارڈ مرتب کرنے کی ذمہ داری پٹواری کی رہی ہے۔ پاکستان میں کسی سے بھی پوچھیں جس کا واسطہ زمین کے تنازعے سے پڑا ہو اور وہ آپ کو پٹواری کی کارستانیاں بتائے گا۔ پٹواری نہ صرف لینڈ ریکارڈ افسران بلکہ زمین مالکان کے لیئے بھی یکساں طور پر پریشانی کا باعث رہا ہے۔ زمینوں کی کمپیوٹرائزیشن سے نہ صرف پٹواری کے اثر رسوخ میں خاطر خواہ کمی آئے گی بلکہ لوگ بھی سکھ کا سانس لینگے۔ بین الاقوامی رجحاناپنے بے شمار فوائد کی وجہ سے 5۔60 فیصد ممالک میں پراپرٹی رجسٹریاں الیکٹرانک لینڈ فائلز پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اس ریکارڈ کو مرتب کرنا نہ صرف آسان ہے بلکہ اس ریکارڈ کو رکھنے کے لیئے بڑی جگہ نہیں چاہیئے۔ اس کے علاوہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ ریکارڈ کی بیک اپ فائلیں قدرتی آفات کے دوران محفوظ رہیں۔ لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کی مدد سے ضروری معلومات تک عوام کی رسائی کو آسان بنایا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس عمل کے ذریعے ریکارڈ مرتب کرنے میں لگنے والے اخراجات میں خاطر خواہ کمی کی جاسکتی ہے۔ اس لیئے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ 200 عالمی معیشتوں میں سے 63 فیصد نے اپنا لینڈ ریکارڈ آن لائن شیئر کیا ہوا ہے۔ چونکہ کمپیوٹرائزیشن کا نظام پرانے اور فرسودہ نظام سے کہیں زیادہ بہتر ہے اس لیئے بین الاقوامی ڈونرز ممالک کو اپنا ریکارڈ کمپیوٹرائز کرنے کے لیئے امداد فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان بھی ان ممالک کی صف میں شامل ہورہا ہے جنھوں نے لینڈ کمپیوٹرائزیشن کے ذریعے اپنے رہنے والوں کی زندگی آسان بنائی ہے۔
زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیوں کریں؟
19
مئی 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں