غریب کے لئے بجلی مہنگی نہ کریں،15 ہزار روپے تنخواہ والا کیسے بل دے گا،نور عالم نے واپڈا افسران کو مفت بجلی نہ دینے کا مطالبہ کر دیا

15  فروری‬‮  2023

اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے ضمنی مالیاتی بل 2023 قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کر تے ہوئے کہا ہے کہ لگژری اشیا پر سیلز ٹیکس 17 سے 25 فیصد کرنے ، شادی ہالز کی تقریبات کے بلوں پر 10 فیصد ٹیکس عائد کرنے ،سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ڈیڑھ سے 2 روپے فی کلوگرام اضافہ،سگریٹ اور مشروبات

پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں اضافے کی تجویز ہے ،محصولات کا 170 ارب موجودہ اور پچھلا ٹارگٹ پورا کیا جائیگا،ہوائی سفر میں فرسٹ کلاس اور بزنس کلاس میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ٹکٹ کا 20فیصد یا 50 ہزار روپے میں سے جو بھی زیادہ ہو، وہ عائد کی جائے گی،جی ایس ٹی کی شرح کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18فیصد ہوگا،مسلم لیگ (ن )کے گزشتہ دور میں معیشت ترقی کررہی تھی،پی ٹی آئی کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو نقصان پہنچا، پی ٹی آئی کے دور میں ملکی تاریخ کے رکارڈ قرضے لیے گئے، حکومت سنبھالی تو ملک پر 34 ہزار ارب کا قرض تھا، ہم نے عمران حکومت کے آئی ایم ایف سے کیے وعدوں کو نبھایا، اس کی بہت بڑی سیاسی قیمت ادا کر رہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں سیاست نہیں ریاست اہم ہے، کوشش ہے غریب عوام پر کم سے کم بوجھ پڑے، اسی نتاظر میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے وظیفے میں اضافہ کیا جا رہا ہے، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم میں 40 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے ،بی آئی ایس پی کی رقم 360 ارب روپے سے بڑھا کر 400 ارب روپے کی جا رہی ہے، کسانوں کو زرعی آلات پر سستے قرضے دیے جائیں گے ،ادویات، پیٹرولیم، اسپورٹس کی ایل سی کھولنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے، ابتدائی طور پر معاشی ترقی کی رفتار سست ہو گی مگر بعد میں یہ شرح 4 فیصد تک جائے گی،وزیراعظم شہباز شریف جلد مالیاتی ضمنی بل پر قوم کو اعتماد میں لیں گے، وزیراعظم اور کابینہ اپنے اخراجات کم کرنے کا پلان دیگی

جبکہ سینٹ میں اپوزیشن نے شدید احتجاج کرتے ہوئے چیئر مین سینٹ کے ڈائس کا گھیرائو کرلیا ، بل کی کاپیاں پھاڑ دیں ،چیئر مین سینٹ نے بل متعلقہ کمیٹی کو بھجوادیا ۔ بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت مقررہ وقت سے تقریباً ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔ اجلاس میں وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے ضمنی مالیاتی بل 2023 ایوان میں پیش کہا کہ

اس سے قبل کہ میں فانس سپلیمنٹری بل پر اس ایوان کو اعتماد میں لوں، میں آپ کی اجازت سے ماضی قریب کی معاشی تاریخ کا ایک مختصر جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔انہوںنے کہاکہ مسلم لیگ(ن) کے پانچ سالہ دور میں مجموعی قومی پیداوار کے حجم 112ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ پی ٹی آئی کے چار سالہ دور حکومت میں ناقص معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں صرف 26ارب ڈالر کا جی ڈی کا اضافہ ہو سکا۔

انہوں نے کہا کہ جب 2013 میں میاں نواز شریف کی وزیر عظمیٰ میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو پاکستان میں فی کس 1389ڈالر تھی، اس میں مضبوط معاشی پالیسیوں اور ہمارے قائد نواز شریف کے وڑن کی بدولت یہ 379 ڈالر کے واضح اضافے کے ساتھ 1768ڈالر تک پہنچ گئی۔انہوںنے کہاکہ آنے والی حکومت اپنے سطحی قسم کے اقدامات کی وجہ سے چار سال کے عرصے میں فی کس آمدن میں صرف 30ڈالر کا اضافہ کر کے اس آمدنی کو 1798 ڈالر تک لے جا سکی۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی 2018 میں مارکیٹ کیپیٹلائزیشن 100ارب ڈالر کے قریب تھی اور پاکستان پر سرمایہ داروں کے اعتماد کو ظاہر کرتی تھی، اس کو پی ٹی آئی کی حکومت نے 26اربن ڈالر پر لا کر کھڑا کیا، یہ سرمایہ داروں کے پی ٹی آئی حکومت پر عدم اعتماد پر ظاہر کرتا ہے۔انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ(ن) ملکی قرضوں میں ہمیشہ کم سے کم اضافے کی کوشش کرتی ہے

تاہم 2018 میں پی ٹی آئی حکومت آئی تو 1947 سے اس سال تک پاکستان کے مجموعی قرضوں کا حجم 24ہزار 953 ارب تھا جو پی ٹی آئی کے چار سالہ دور حکومت میں بڑھ کر 44ہزار 383ارب ہو گیا، یہ قرضوں کا حجم جو 2018 میں جی ڈی پی کا 63.7 فیصد تھا، وہ بڑھ کر 2022 میں 73.5 فیصد ہو گیا ، اس کے نتیجے میں ہماری سالانہ قرضوں کی سروسنگ بدقسمتی سے پانچ ہزار ارب روپے سے تجاوز کر جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ 2013 سے 2018 کے دوران پائیدار بلند شرح نمو کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت دنیا میں 24ویں نمبر پر آ گئی تھی، دنیا کے معتبر ادارے پاکستان کی ترقی کے معترف تھے، جاپان کے معروف ادارے جیٹرو نے براہ راست ڈائریکٹ سرمایہ کاری کے حوالے سے دنیا کو دوسرا پسندیدہ ملک قرار دیا تھا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اسی طرح پاکستان اسٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں نمبر ایک پر تھی، 18-2017 میں معیشت کی شرح نمو چھ فیصد سے تجاوز کر چکی تھی،

افراط زر کی شرح 5فیصد تھی، کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی صرف اوسطاً دو فیصد تھی، ان حالات میں اس ملک میں اچانک ایک غیرسایسی تبدیلی لائی گئی جس نے ایک کامیاب اور بھرپور مینڈیٹ کی حامل حکومت کو اپاہج کر کے رکھ دیا۔انہوںنے کہاکہ 2018 کے الیکشن میں ایک سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی ، اس سلیکٹڈ حکومت کی معاشی ناکامیوں پر میں اتنا ہی کہنا کافی سمجھوں گا کہ جو ملک دنیا کی 24ویں معیشت بن چکا تھا وہ 2022 میں گر کر دنیا کی 47ویں معیشت گر گیا،

یہ چار سالہ کارکردگی کا نچوڑ تھا، یہ وقت کیا گیا جب یہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان چند سال بعد جی20 ممالک کی فہرست میں شامل ہو گا، چاہے جو بھی جمہوری تبدیلی آتی لیکن کاش کہ ہم اسی ترقی کی شرح کو آگے لے کر جاتے تو آج ہم دنیا کی جی20 میں شامل ہونے کے قریب ہوتے لیکن بدقسمتی سے 2022 میں ہم دنیا کی 47ویں معیشت بن چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں اس معزز ایوان کے توسط سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس معاشی تنزلی کی وجوہات جاننے کے لیے ایک قومی کمیشن تشکیل دیا جائے

جو اس بات کا تعین کرے کہ ملکی مفاد کے خلاف یہ سازش کیسے اور کس نے کی اور جس کے نتیجے میں آج ہماری پوری قوم بھاری قیمت ادا کررہی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت کو ایک بیمار معیشت ملی، پچھلے سال جب حکومت میں تبدیلی آئی تو مالیاتی خسارہ موجودہ دور کی بلند ترین شرح 7.9فیصد پر تھا ، بیرون ادائیگیوں کا خسارہ 17.4ارب ڈالر اور تجارتی خسارہ 40ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا، معیشت تباہی کے دہانے پر تھی، ہم 2018 تک معیشت کو مضبوط معاشی بنیادوں پر کھڑا کیا تھا

لینک ہمارے پیشرو نے اسے برباد کرکے رکھ دیا۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو آئے ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے اور معیشت کو سنبھالا دیا جا رہا تھا کہ تاریخی سیلاب کی ناگہانی آفت نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس کی شدت سے اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے جس میں سے بیشتر بے گھر ہوئے اور ہمارے 1730 بہن بھائی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ اس قدرتی آفت سے ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، یورپی یونین،

اقوام متحدہ کی تنظیموں اور وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے لگائے گئے تخمینے کے مطابق پاکستان کو ان سیلابوں سے 8ہزار ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا، پاکستان کی جانب سے اخراج ایک فیصد سے کم ہے اور پاکستان اس وقت موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا کا آٹھواں سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔انہوںنے کہاکہ اس سیلاب کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں بیماریاں پھوٹ پڑیں، کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں خصوصاً کپاس کی قیمتی فصل کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا، قلیل مالی وسائل کے باوجود موجودہ حکومت نے 100ارب روپے فوری ریلیف اور بحالی پر خرچ کیے،

300ارب سے زائد کے وسائل ازسرنو تعمیرات کے لیے موجودہ مالی سال میں وسائل مختص کیے گئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ عمران خان حکومت نے 2019 میں آئی ایم ایف سے ایک معاہدہ کیا تھا، جن لوگوں نے وہ معاہدہ نہیں پڑھا وہ ایک مرتبہ اسے ضرور پڑھیں، یہ معاہدہ آج کے حالات میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے، یہ ایک حکومت کا نہیں بلکہ ریاست کا معاہدہ ہوتا ہے اور ستم ظریقی یہ کہ عمران خان حکومت نے اپنے ہی کیے ہوئے معاہدے سے انحراف کیا، جب تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو معاہدے کے کلیدی نکات کے برعکس انہوں نے فیصلے کر دیے اور اس کو ماننے سے انکار کردیا،

اس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کا معاہدہ تعطل کا شکار ہوا اور آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان بھروسے کے حوالے سے ایک وسیع خلیج آ گئی۔مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ایک حکومت نہیں بلکہ ریاست کا معاہدہ ہوتا ہے اور اسی کی روح پر عمل کرتے ہوئے ہماری حکومت نے عمران خان حکومت کی جانب سے کیے گئے معاہدے کو من و عن تسلیم کیا، ناصرف اس معاہدے کو بحال کروایا بلکہ اس بات سے قطع نظر اس معاہدے پر عملدرآمد بھی یقینی بنایا کہ اس سے ان کو کتنا سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا، آج تمام سیاسی جماعتوں کو اس وجہ سے عوامی سطح پر بے پناہ نقصان ہوا

تاہم میں ہمیں اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہیے کہ ریاست کو سیاست پر فوقیت ہونی چاہیے ، اگر ریاست ہے تو سیاست ہے۔انہوںنے کہاکہ اسی پس منظر میں آئی ایم ایف کا نواں مشن پاکستان آیا اور اس سے ہماری معاشی ٹیم کے 31 جنوری سے 9 فروری تک 10 دن مذاکرات ہوئے، اس کے نتیجے میں ایک مفاہمت ہوئی اور ہم نے مختلف معاملات پر مزید عملدرآمد کرنے کا عندیا دیا، ان معاملات میں سب سے اہم نکتہ اضافی 170ارب روپے کے محصولات کی وصولی کا ہے۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اس مالی سال کے اہداف پورے کرے گا،

ان اضالی محصولات کا حکومت کی مالی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں ہے ، پاکستان میں بجلی کے گردشی قرضوں کا ایک دیرینہ بحران کئی سالوں سے چل رہا ہے تاہم اس کا حجم بڑھتا جا رہا ہے، بجلی کی چوری، لائن لاسز، بلوں کی عدم ادائیگی کے نتیجے میں تین ہزار ارب روپے کے لگ بھگ بجلی کے بلوں کے عوض صرف 1600ارب وصول کیا جاتا ہے اور باقی 1400ارب سالانہ نقصان ہے، یہ کسی بھی معیشت کے لیے لمحہ فکریہ ہے، اس قسم کے نقصان کی کوئی بھی ریاست متحمل نہیں ہو سکتی۔انہوںنے کہاکہ 2013 سے 2018 کے دوران ہماری پچھلی حکومت نے اس سنگین معاملے کو سنبھالنے کی بھرپور کوشش کی

اور اس کے نتیجے میں گردشی قرضوں کے بڑھنے کی رفتار میں خاطر خواہ کمی آئی، شومئی قسمت کہ پچھلی حکومت نے اس مسئلے پر بھی کوئی توجہ نہیں دی اور ان کی نااہلی کے سبب چار سالہ حکومت کے دوران گردشی قرضہ 2018 میں 1148 ارب سے بڑھ کر 2467ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ بجلی کے شعبے میں اصلاحات ہمارے اپنے معاشی مستقبل کیلئے کلیدی حیثیت رکھتی ہے، اس دگرگوں صورتحال سے نمٹنے کے لیے لازم ہے کہ ہم چند مشکل فیصلے کریں جو آج ہمیں گراں معلوم ہوتے ہیں لیکن بجلی کے شعبے کی اصلاح اور معاشی استحکام کے لیے انتہائی ناگزیر ہیں،

اس تناظر میں عالمی مالیاتی اداروں نے بھی اس شعبے کی اصلاحات کو یقینی بنانے پر بہت زور دیا ہے، حکومت نے جن اصلاحات کا فیصلہ کیا ہے اس کے نتیجے میں اس سال شامل ہونے والے 855ارب روپے کے گردشی قرضوں کو کم کر کے 336ارب روپے کیا گیا ، یہ ہمارا نیا ہدف ہے کیونکہ 570ارب روپے اس معزز ایوان نے بجٹ میں منظور کیے ہوئے ہیں، یہ اس کے علاوہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ باقی ماندہ فرق کو پورا کرنے کے لیے بجٹ سے رقم مختص کی جائے گی جس کی وجہ سے بجٹ میں آنے والے مزید خسارے کے کچھ حصے کو نئے محصولات سے حاصل کیا جائے گا لہٰذا اس فنانس بل کے ذریعے کابینہ نے 170ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کی منظوری دی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہماری کوشش ہے کہ صرف ایسے ٹیکس لگائے جائیں جس کا براہ راست غریب اور متوسط طبقے پر کم سے کم بوجھ آئے اس لیے روزمرہ کی اشیا پر اضافی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا، اس تناظر میں اس معزز ایوان میں مندرجہ ذیل ٹیکس تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔وزیر خزانہ نے تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے امیر طبقے پر اضافی ٹیکس لگانے کی حکمت عملی کے تحت اب لگژری آئٹم پر جی ایس ٹی کی شرح کو 17فیصد سے بڑھا کر 25فیصد کی بلند سطح پر لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح ہوائی سفر میں فرسٹ کلاس اور بزنس کلاس میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ٹکٹ کا 20فیصد یا 50 ہزار روپے میں سے جو بھی زیادہ ہو،

وہ عائد کی جائے گی، اس طرح پرتعیش شادی ہالز میں منعقدہ شادی بیاہ میں اصراف دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ہم سب کو سادگی اپنانی چاہیے اس لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ شادی کی تقریبات کے بلوں پر 10فیصد کی شرح سے ودہولڈنگ ایڈجسٹیبل ایڈوانس انکم ٹیکس نافذ کیا جائے گا۔نہوں نے کہاکہ عالمی ادارہ صحت نے چند ایسی اشیا ء کی قیمتیں بڑھانے کی سفارش کی ہے جو انسانی صحت کیلئے مضر ہیں، اس لیے سگریٹ، ایریٹڈ، شوگری ڈرنکس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ تجویز کیا جا رہا ہے، یہ ڈیڑھ روپے فی کلو گرام تھی اور اسے بڑھا کر 2 روپے فی کلو گرام کرنے کی تجویز ہے، کووڈ سے پہلے بھی یہ دو روپے فی کلو گرام ہی تھی لیکن کووڈ کے دوران اسے کم کیا گیا تھا۔

اسحٰق ڈار نے کہا کہ جی ایس ٹی کی شرح کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18فیصد کیا جا رہا ہے، اضافی محصولات عائد کرتے ہوئے ہم نے کوشش کی ہے کہ عام استعمال کی اشیا مثلاً گندم، چاول، دودھ، دالیں، سبزیاں، پھل ، مچھلی، انڈوں، کھلے گوشت اور مرغی پر یہ اضافی ٹیکس عائد نہ کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو اس بات کا احساس ہے کہ مہنگائی نے ہمارے غریب بہن بھائیوں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والے افراد کے ماہانہ وظیفے میں اضافہ کیا جائے اور اس کے لیے 40ارب روپے مزید مختص کیے جا رہے ہیں، یعنی ایوان کی جانب سے مختص 360ارب روپے کو بڑھا کر 400ارب روپے کیا جا رہا ہے ۔

اجلاس کے دور ان اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ یہ بل قائمہ کمیٹی کو نہیں بھجوایا جارہا۔پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئر مین نور عالم خان نے کہاکہ دوائیں مہنگی ہوگئی ہیں،15 روپے والی دوا اب سو روپے کی ملے گی،واپڈا افسران کو آپ 13 سو یونٹ مفت دیتے ہیں اور غریب آدمی سے بل لیتے ہیں،مفت یونٹ دینے کا سلسلہ بند کریں۔انہوں نے کہاکہ عوام کو لوڈ شیڈنگ کے سبب تنگ ہوتے ہیں اور افسر ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہوتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ واپڈا افسران کو لاکھوں روپے تنخواہ ،گاڑی اور بیشمار مراعات دے رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ کہتے ہیں قرضے معاف کریں گے مگر سیلاب زدگان کے قرضے کیوں معاف نہیں کئے۔انہوکںنے کہاکہ اگر آپ ٹیکس لگاتے ہیں تو کچھ سہولت تو دیں۔

انہوں نے کہاکہ غریب کے لئے صرف نعرے لگانا زیادتی ہوگی۔انہوں نے کہاکہ غریب کے لئے بجلی مہنگی نہ کریں۔15 ہزار روپے تنخواہ والا کیسے بل دے گاانہوں نے کہاکہ ٹیکس کلیکشن والے چور ہیں،عوام تو ٹیکس دیتے ہیں۔اہوںنے کہاکہ آپ اپنے اداروں کو تو لگام دیں،گرین چینلز پر سمگلنگ ہوتی ہے۔انہوںنے کہاکہ کون مالک ہے اس سے پوچھا جائے کہ افغانستان ڈالر کیسے جارہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے مولانا عبدالکبر چترالی نے کہاکہ یہ بل پاکستان کو غلام بنانے کے لئے لایا جارہا ہے ،ہم جغرافیائی طور پر آزاد ہیں مگر مالیاتی طور پر امریکہ کے غلام ابن غلام ہیں۔انہوں نے کہاکہ آپ سادگی کی بات کرتے ہیں، یہاں بلاول بھٹو زرداری سبزہ زار سے گارڈوں کے جھرمٹ میں جاتے ہیں۔

راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ سپیکر قومی اسمبلی نے ٹوک دیا، آپ یہاں تقریر نہیں کرسکتے صرف نکتہ اعتراض پر بات کریں۔ مولانا عبد الکبر چترالی نے کہاکہ میں اپنا نکتہ نظر پیش کررہا ہوں۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے تنبیہ کی کہ آپ تقریر نہیں کرسکتے۔ مولانا عبد الاکبر چترالی نے کہاکہ اگر تقریر میں نہیں کرسکتا تو کورم پوائنٹ کرتا ہوں اس موقع پر سپیکر قومی اسمبلی نے کورم کا سنتے ہی اجلاس جمعہ صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا۔بعد ازاں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ میں بھی ضمنی مالیاتی بل 2023 پیش کیا، اس موقع پر اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے چیئرمین سینیٹ کی ڈائس کا گھیراؤ کرلیا ۔ اپویشن اراکین نے مالیاتی بل کی کاپیاں پھاڑ دیں اور حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کی ۔ اپوزیشن شدید شورشرابے کے بعد چیئرمین سینیٹ نے بل قائمہ کمیٹی فنانس کو بھیجتے ہوئے ایوان کی کارروائی 23 فروری تک ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز صدر مملکت کی جانب سے آرڈیننس جاری کرنے سے ’انکار‘ کے فوری بعد وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں ٹیکس ترمیمی بل، فنانس بل 2023 کی منظوری دی گئی تھی۔ابتدا میں حکومت نے ایک کھرب 70 ارب روپے کے فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے ’ٹیکس اور نان ٹیکس اقدامات‘ متعارف کرانے کا منصوبہ بنایا تھا تاہم آخری لمحات میں اس نے نان ٹیکس اقدامات بالخصوص ایک کھرب روپے اکٹھے کرنے کے لیے فلڈ لیوی کی تجویز چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔رات گئے ہونے والی پیش رفت میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے مقامی سطح پر تیار ہونے والی سگریٹس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کے لیے ایس آر او 178 جاری کیا جس سے تمباکو کی مصنوعات پر عائد ٹیکس سے 60 ارب روپے اکٹھے ہوں گے،اس کے علاوہ حکومت جنرل سیلز ٹیکس کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے سے مزید 55 ارب روپے حاصل کرے گی۔اس کے علاوہ بقیہ 55 ارب روپے ہوائی جہاز کے ٹکٹس، چینی کے مشروبات پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھا کر اور ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر کے اکٹھے کیے جائیں گے۔

موضوعات:



کالم



بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟


’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…