قطر سے خفیہ معاہدہ،ایل این جی ٹرمینل 13ارب ڈالر سے شروع ہوا جو 200ارب ڈالر تک پہنچ گیا،سنسنی خیز انکشافات،نیب سے تفتیش کرانے کی سفارش کردی گئی

31  اگست‬‮  2018

اسلام آباد( آ ئی این پی)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم نے ایل این جی معائدے اور ٹرمینل کی نیب سے تفتیش کرانے کی سفارش کرتے ہوئے 6ماہ میں رپورٹ طلب کر لی، پٹرولیم ڈویژ ن کے دیگر حکام نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ ایل این جیمعا ہدہ پاکستان اور قطر کی ریاست کے مابین تھا،ساری دنیا کے اندر بین الاقوامی معائدوں کو خفیہ رکھنے کا قانون ہوتا ہے،ایل این جی معائدے میں پی ایس او کے51 فیصد شیئرز ہیں،

صارفین کو ایل این جی1600روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے ریٹ پر فراہم کی جاتی ہے، پاکستان نے ایل این جی معا ہدہ بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلہ میں کم قیمت میں کیا، ملک کے اندر موجود توانائی کے اداروں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے طویل المدتی معا ہدہ کیا گیا، کوہلو کی گیس کا پریشر اور بی ٹی یو کم ہیں جس کے باعث یہ گیس روزمرہ استعمال میں نہیں لائی جا سکتی، کمیٹی اراکین نے کہا کہ ایل این جی ٹرمینل 13ارب ڈالر سے شروع ہوا جو معد میں 200ارب ڈالر تک پہنچ گیا، ایل این جی معائدے پرقطر کی ریاست کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کئے جائیں، پارلیمنٹ کی اتنی اہمیت بھی نہیں کہ خفیہ معا ہدہ کرنے سے پہلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جاتا، کنسلٹنٹ نے 4سال کیلئے معا ہدہ کرنے کی تجویز دی تھی پر 15سال کیلئے کیوں کیا گیا،ملک کی سستی گیس چھوڑ کر بیرون ملک سے مہنگی گیس درآمد کی جارہی ہے جو ملک کے ساتھ دشمنی ہے،سینڈک سے جتنا سونا اور چاندی نکالا جا رہا ہے اس میں سے 50فیصد چین کو، 48فیصد چینی کمپنی کو اور صرف 2 فیصد بلوچستان کو دیا جا رہا ہے،کمیٹی نے60سال سے آیل ریفائنریز کو سبسڈی دئے جانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی۔جمعہ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم کا اجلاس سینیٹر محسن عزیر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر برائے پٹرولیم غلام سرور، سینیٹر سلیم ضیا، سینیٹر شمیم آفریدی، سینیٹر عطا الرحمٰن،

سینیٹر تاج محمد آفریدی، سیکریٹری پٹرولیم، پاکستان سٹیٹ آئل، آئل انڈ گیس ڈویلپمنٹ لمیٹڈ اور پٹرولیم ڈویژ ن کے دیگر حکام نے شرکت کی۔ کمیٹی اراکین نے قطر سے ایل این جی معاہدے کی تفصیلات پر اپنے سوالات کے جواب طلب کیے۔ سینیٹر محسن عزیر نے کہا کہ اس سے قبل کمیٹی کے ان کیمرا اجلاس میں پٹرولیم ڈویژ ن کے دیگر حکام نے ایل این جی کا معاہدہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ معاہدہ کانفیڈنشل ہے اس لیے اس کو پبلک نہیں کیا گیا۔ پی ایس ایل نے کمیٹی کو سوالاوں کے جواب گول مول انداز میں دیے ہیں۔

ایسا تاثر دیا جا رہا ہے جیسے کسی معاملے کی پردہ داری ہے۔ پارلیمنٹ کی اتنی اہمیت بھی نہیں کہ خفیہ معاہدہ کرنے سے پہلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جاتا۔ پٹرولیم ڈویژ ن حکام نے کمیٹی کو ایل این جی معاہدے پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ قطر کے ساتھ 15سال کیلئے ایل این جی معا ہدہ کیا گیا۔ یہ معا ہدہپاکستان اور قطر کی ریاست کے مابین تھا۔ قطر گیس کے اندر قطر کی ریاست کا شیئر70فیصد ہے جبکہ پی ایس او کے شیئرز51فیصد ہیں پاکستان کی جانب سے معاہدے میں۔ساری دنیا کے اندر بین الاقوامی معاہدوں کو خفیہ رکھنے کا قانون ہوتا ہے

اسی طرح پاکستان نے بھی معاہدے کو خفیہ رکھا ہے۔کمیٹی اراکین کے بار بار پوچھنے کے باوجود پٹرولیم ڈویژ ن حکام کمیٹی کے سوال کا تسلی بخش جعاب دینے میں ناکام رہے۔ اس پر کمیٹی ارکان نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ایسا بین الاقوامی مہائدہ بتا دیں جو اس ملک کی پارلیمنٹ سے بھی خفیہ رکھا گیا ہو۔معائدے کو چھپانے کا مقصد معائدے کی اصلیت چھپانا ہے۔پٹرولیم ڈویژ ن حکام الف لیلیٰ کی کہانیاں سنا رہے ہیں۔پاکستان کے اندر گیس موجود ہونے کے باوجود قطر سے مہنگی قیمت پر گیس درآمد کی گئی۔ کمیٹی ارکان نے سوال کیا کہ مہائدہ15سال کیلئے کیوں کیا گیا۔

اس پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ ملک کے اندر موجود توانائی کے اداروں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے طویل المدتی مہائدہ کیا گیا۔ملک کے اندر ری گیسیفکیشن پلانٹ لگائے گئے تھے جن کی ضروریات پوری کرنے کیلئے یہ مہائدہ کیا گیا۔ اس پر سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ اس منصوبے کے کنسلٹنٹ نے تو 4سال کیلئے معا ہدہ کرنے کی تجویز دی تھی پر 15سال کیلئے معا ہدہ کیوں کیا گیا۔نیب کی اس حوالے سے انکوائیر کو بھی رکوا دیا گیا ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ساری دنیا کے اندر بین الاقوامی معاہدوں کو خفیہ رکھنے کا قانون ہوتا ہے۔ اس پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ

اس معاہدے پر بھارت کی طرح قطر کی ریاست کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کئے جائیں اور قیمت کم کرانے کی کوشش کی جائے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایل این جی گیس پاکستان کے اندر صارفین کو1600روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے ریٹ پر فراہم کی جاتی ہے۔ ایل این جی معاملات پر کمیٹی اراکین نے عدم اطمینان کیا۔ اس پر کمیٹی نے متفقہ طور پر ایل این جی معاہدے اور ٹرمینل کی نیب سے تفتیش کرانے کی سفارش کرتے ہوئے 6ماہ میں رپورٹ طلب کر لی۔ پٹرولیم کنسلٹنٹ نے کمیٹی کو بتایا کہ پی ایس او نے ایل این جی طویل المدتی معاہدہ 4ارب ڈالر مہنگا کیا ہے۔سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ایل این جی ٹرمینل 13ارب ڈالر سے شروع ہوا جو معد میں 200ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔

روزانہ 2لاکھ72ہزار ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں جس سے قوم کا 20کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ کوہلو میں گیس کے ذخائر 100 سال کیلئے قوم کی گیس کی ضرورہات پوری کر سکتے ہیں ۔ملک کی سستی گیس چھوڑ کر بیرون ملک سے مہنگی گیس درآمد کی جارہی ہے جو ملک کے ساتھ دشمنی ہے۔او جی ڈی سی ایل حکام نے کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ کوہلو کے اندر امن و امان کاشدید مسئلہ ہے جس کے باعث وہاں کا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے ۔کوہلو میں او جی ڈی سی کے7بلاک ہیں۔ کوہلو کی گیس کا پریشر اور بی ٹی یو کم ہیں جس کے باعث یہ گیس روزمرہ استعمال میں نہیں لائی جا سکتی۔ کوہلو میں گیس کے مزید ذخائر کی دریافت کا کام جاری ہے۔

25سال بعد کوہلو میں پہلا جیولوجیکل سروے مکمل کیا گیا ہے۔ کم از کم 5سال سے پہلے کوہلو میں ترقی نہیں ہو سکتی۔ اس پر کمیٹی اراکین نے کہا کہ او جی ڈی سی کو 27سال پہلے کوہلو میں کام کرنے کا لائسنس دیا تھا لیکن ابھی تک وہاں کام زرا بھی نہیں کیا گیا۔سینڈک سے جتنا سونا اور چاندی نکالا جا رہا ہے اس میں سے 50فیصد چین کو، 48فیصد کمپنی کو اور صرف 2 فیصد بلوچستان کو دیا جا رہا ہے۔ اس پر پٹرولیم کے وزیر غلام سرور نے کہا کہ ہماری حکومت پٹرولیم کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے اور 6ماہ کے اندر سب کو فرق نظر آئے گا۔ہم جلد انرجی ٹاسک فورس قائم کر رہے ہیں جو تمام مسائل کو دکھے گی۔ ہم اپنے100دن کے پلان پر عملدرآمد کر کے دکھائیں گے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ سوئی میں گیس کنویں کی لیز 2015میں ختم ہو چکی ہے۔ اوگرا آرڈیننس 2002کے تحت پٹرول کی قیمت کا تعین کیا جاتا ہے۔پاکستان میں پٹرول کی قیمت کو عرب ممالک کی قیمتوں کے ساتھمنسلک کیا گیا ہے۔۔ پٹرول کے اوپر لیوی فنانس ڈویژن لیتی ہے۔ 2013میں103.3ارب، 2014میں 131ارب، 2015میں 149ارب، 2016میں 161ارب اور 2017میں 178ارب پٹرول لیوی کی مد میں حاصل کیے گئے۔سینیٹر محسن وزیر نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ 60سالوں سے ناکارہ پٹرول ریفائنریز کی بحالی کیلئے پٹرولیم صارفین سے ٹیس وصول کیا جا رہا ہے۔اداروں کا کام عوام کے مفادات کا تحفظ ہے ۔ سرتاج عزیز نے2006میں ڈیزل پر ڈیم ڈیوٹی ختم کرنے کا کہا تھا لیکن پٹرولیم ڈویژن آج بھی عوام سے یہ ڈیوٹی لے رہی ہے۔کمیٹی نے60سال سے آیل ریفائنریز کو سبسڈی دئے جانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی۔

موضوعات:



کالم



بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟


’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…