سیاست میں کسی ذاتی فائدے کے لیے نہیں آیا،یہ ہمیشہ سے ایک مشن تھا، چینی مسلمانوں کے حوالے سے انٹرویو میں سوال پر وزیراعظم عمران خان کا حیران کن جواب

24  جنوری‬‮  2020

ڈیووس (این این آئی)وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تفریق پاکستان کے آئین کا حصہ نہیں اور نہ ہی یہ پاکستانی حکومت کی پالیسی میں شامل ہے،بھارت میں لوگ خوفزدہ ہیں،اگر بات کسی اقلیت یا خاص طور پر مسلمانوں کی کریں تو جو انڈیا میں ہو رہا ہے اس کا موازنہ پاکستان سے نہیں کیا جا سکتا، پاکستان میں معیشت اب سنبھل چکی ہے، روپے کی قدر مستحکم ہوگئی ہے، سٹاک مارکیٹ میں اعتماد آنے کے بعد اوپر جا رہی ہے،

سرمایہ کاری 100 فیصد تک اوپر گئی ہے،2020ترقی کا سال ہے،کشمیر انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک متنازع علاقہ ہے اور یہ براہ راست ہماری تشویش کا باعث ہے،اگر پاکستان اور انڈیا کے درمیان دو طرفہ بات چیت نہیں ہوتی تو اس مسئلے کا حل کس طرح نکلے گا، اگر امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو یہ پاکستان کے لیے تباہ کن ہوگا،سیاست میں کسی ذاتی فائدے کے لیے نہیں آیا،یہ ہمیشہ سے ایک مشن تھا۔بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ایسے لوگ رہے ہوں گے جنھوں نے اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ رویہ نہیں رکھا ہوگا، لیکن جب بھی کسی نے (ایسا کیا ہے تو) حکومت نے لوگوں کے خلاف اقدامات کیے ہیں،مثال کے طور پر پنجاب میں ایک واقعہ ہوا تھا جس میں سکھ برادری کو نشانہ بنایا گیا تھا، ہم نے اس کے ردعمل میں کارروائی کی اور وہ شخص اب قید میں ہے تاہم ایسا انڈیا میں نہیں ہو رہا،وہاں قانون اپنے ہاتھ میں لینے والے گروہ موجود ہیں۔ گائے کا گوشت کھانے پر سب کے سامنے قتل کیا جاتا ہے،(انڈیا اور پاکستان میں) ’فرق یہ ہے کہ انڈیا نے ایسا قانون منظور کر لیا ہے جو انڈیا میں مسلمانوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے،اس سے مسلمان دوسرے درجے کے شہری بن جاتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ بھارت میں لوگ خوفزدہ ہیں،اگر بات کسی اقلیت یا خاص طور پر مسلمانوں کی کریں تو جو انڈیا میں ہو رہا ہے اس کا موازنہ پاکستان سے نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان میں معاشی بحران، روپے کی قدر میں کمی اور صنعتی سست رفتاری سے نکلنے کے لیے

حکومتی منصوبے پر پوچھے گئے ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ انھوں نے ایک مشکل صورتحال میں حکومت سنبھالی اور اس وقت پاکستان کو ’تاریخ کے سب سے بڑے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے‘ کا سامنا تھا،درآمدات 60 ارب ڈالر تھیں اور برآمدات کم ہو کر20 ارب ڈالر تھیں،یہ بڑا فاصلہ تھا،ہمیں آغاز میں ہی بڑے فیصلے کرنے تھے۔ افسوس کے ساتھ اس سے لوگ متاثر ہوئے تاہم پھر ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 75 فیصد تک کم ہواانھوں نے دعویٰ کیا کہ معیشت اب سنبھل چکی ہے،

روپے کی قدر مستحکم ہوگئی ہے، سٹاک مارکیٹ میں اعتماد آنے کے بعد یہ اوپر جا رہی ہے، سرمایہ کاری 100 فیصد تک اوپر گئی ہے۔ اس سال ہم پاکستان میں ترقی دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ لوگ نوکریاں حاصل کر سکیں۔ گذشتہ سال لوگوں کے لیے استحکام نہ ہونے کی وجہ سے مشکل تھا۔ ہر ایسی معیشت جس میں بڑا خسارہ اور قرضے ہوں اسے مشکل وقت سے گزرنا پڑتا ہے۔برآمدات میں اضافے کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ پہلے ہونے والی ترقی درآمدات اور کھپت پر منحصر تھی اس مشکل وقت کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ جہاں ہم برآمدات سے ترقی کرنے جا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پہلے کے اقدامات کی وجہ سے روپے کی قدر کم ہوتی تھی جس کا مطلب آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کرنا ہوتا تھا اور ہم اس چکر سے گزرتے رہے۔ اب ہم پاکستان کو اصل ترقی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جو برآمدات سے ہوتی ہے لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ اس میں کتنا وقت لگے گا تو عمران خان نے کہا کہ اس میں وقت لگتا ہے،ابھی سے ہماری برآمدات زیادہ ہوگئی ہیں،پانچ سال سے یہ سست روی کا شکار تھیں۔ ترسیلات میں اضافہ ہوا ہے جس کی مدد سے ڈالرز ملک میں آتے ہیں۔ سیاحت ہمارے لیے مختصر مدت میں بہترین ذریعہ ہے۔ ہم مختصر مدتی اقدامات پر توجہ دے رہے ہیں

لیکن بالاخر (مقصد) صنعت کاری ہوگی جس میں برآمدات پر توجہ دی جائے گی،سپیشل اکنامک زون بنیں گے جہاں انڈسٹری لگائی جائے گی، لوگوں کو مراعات ملیں گی تاکہ ہم مزید صنعت کاری کر سکیں جیسے 60 کی دہائی میں پاکستان برصغیر میں تمام ممالک سے آگے تھا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کے ایک اور پڑوسی ملک چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کے خلاف زیادتیوں کے ثبوت موجود ہونے کے باوجود انھوں نے اس حوالے سے عوامی طور پر بیان کیوں نہیں دئیے، تو انھوں نے اس حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔عمران خان کی جب توجہ اس جانب دلائی گئی کہ اویغور مسلمانوں کے لیے تربیتی مراکز کہلائے جانے والے ان حراستی مراکز کی تعمیر کے حوالے سے پالیسی دستاویزات سمیت بے تحاشہ ثبوت موجود ہیں،

تو انھوں نے اصرار کیا کہ انھیں اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر انھیں چین کی ساتھ سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک پر تشویش کا اظہار کرنا ہوگا تو وہ یہ کام پس پردہ ہی کریں گے کیونکہ چینی ایسے ہی کام کرتے ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ چین سے اپنے اقتصادی تعلقات کی وجہ سے سنکیانگ کے حوالے سے دانستہ طور پر جاننا چاہ نہیں رہے، تو انھوں نے اس تاثر کی تردید کی۔انھوں نے کہا کہ اس طرح تو مجھے ہر اس جگہ کی بات کرنی چاہیے جہاں مسلمان ہیں، جیسے لیبیا، شام، صومالیہ، یمن۔ ہر جگہ ہی مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے، تو مجھے ہر ایک کے لیے بات کرنی چاہیے۔ بات یہ ہے کہ فی الحال جو انڈیا میں ہو رہا ہے یہ تشویش کا باعث ہے۔انھوں نے کہا کہ یاد رکھیں یہ صرف کشمیر کی بات نہیں،

ابھی انڈیا میں شہریت اور رجسٹریشن ایکٹ کے دو قوانین کی وجہ سے تقریباً دو کروڑ مسلمان غیر قانونی قرار دیے جانے کے خطرے میں ہیں۔ ان کی شہریت چھینی جا سکتی ہے۔ اور یہ پہلا قدم ہوسکتا ہے۔ تو یہ مجھے پریشان کرتا ہے۔عمران خان سے جب سوال کیا گیا کہ وہ بین الاقوامی برادری کو کشمیر کے معاملے پر تجارتی مفادات سے آگے بڑھ کر دیکھنے کے لیے کہتے ہیں مگر خود بظاہر چین کے معاملے میں تجارت سے آگے دیکھنے پر قائل نظر نہیں آتے، تو انھوں نے کہا کہ دنیا میں کہیں بھی اگر کچھ ہو رہا ہے اس سے تناؤ کے ایسے خدشات جنم نہیں لیتے جیسا کشمیر کے مسئلے کی وجہ دو جوہری طاقتوں کے درمیان ہو رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ اگر کچھ غلط ہوتا ہے تو برصغیر سے کہیں دور تک اس کے اثرات ہوں گے۔  انڈیا غلط راستے پر جا رہا ہے اور یہ میرا فرض ہے کہ ایک ایسے فورم کو اس بارے میں آگاہ کروں

جسے دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم کیا گیا تھا تاکہ کہیں بھی جنگ ہونے سے اسے روکا جائے۔ کسی اور جگہ ایسے جنگ کے خطرات نہیں جیسے کشمیر میں ہیں۔اس معاملے کے ممکنہ حل کے حوالے سے پوچھے گئے سوال اور صدر ٹرمپ کی پیشکشوں کے حوالے سے کہا کہ انڈیا نے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور شملہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔اگر پاکستان اور انڈیا کے درمیان دو طرفہ بات چیت نہیں ہوتی تو اس مسئلے کا حل کس طرح نکلے گا، سوائے اس صورت میں کہ اقوام متحدہ یا امریکہ جیسی طاقت مداخلت کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ انڈین حکومت سے بات کرنے کی کوشش کریں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جیسے میں دیکھ رہا ہوں یہ مزید بدتر ہوسکتا ہے۔ اگر یورپی یونین، اقوام متحدہ یا امریکہ مداخلت نہیں کرتا تو چیزیں برے سے مزید گمبھیر ہوجائیں گی۔عمران خان سے جب پوچھا گیا کہ

وہ پانچ اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد انڈین حکومت کا موازنہ نازیوں سے کرنے والے اپنے بیان میں واقعی یہ موازنہ کرنا چاہتے تھے تو انھوں نے پْرزور اثبات میں جواب دیا۔انھوں نے کہا کہ اس وقت انڈیا میں آر ایس ایس نامی ایک انتہا پسند نظریہ حکومت چلا رہا ہے۔آر ایس ایس کا نظریہ 1925 میں اپنے قیام کے وقت نازی پارٹی سے متاثر تھا، وہ نازی پارٹی کی تعریف کرتے تھے اور وہ نسلی برتری کی حمایت کرتے تھے اور انڈیا سے مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ جیسے نازی پارٹی نے یہودیوں کا ختم کیا۔انھوں نے کہا کہ آپ کو صرف آر ایس ایس کے بانیوں کی تحریر پڑھنے کی ضرورت ہے، اور آپ جان جائیں گے کہ یہ انتہا پسند اور نسلی امتیاز پر مبنی نظریہ ہے جس نے مہاتما گاندھی کا قتل کیا۔عمران خان نے کہا کہ مہاتما گاندھی کو آر ایس ایس نے قتل کیا جس پر تین مرتبہ پابندی لگائی گئی اور افسوس یہ ہے کہ

اس نظریے نے ایک ارب کی آبادی والے ملک پر قبضہ کر لیا ہے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کچھ لوگوں کے نزدیک نازیوں سے موازنہ دور کی کوڑی یا اشتعال انگیز ہو سکتا ہے، تو عمران خان نے اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ آر ایس ایس کے بانیان ہندوؤں کی نسلی برتری پر یقین رکھتے تھے،وہ مسلمانوں اور مسیحیوں سے نفرت کرتے ہیں اور انھیں گھس بیٹھیے کہتے ہیں،جب بھی تاریخ میں ایسے قوم پرست اور نسل پرست عناصر دیگر انسانی برادریوں کے خلاف نفرت کے ساتھ آتے ہیں تو خون ریزی ہوتی ہے۔ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ حیران کن ہے۔ 80 لاکھ لوگ گذشتہ پانچ ماہ سے ایک کھلے قید خانے میں ہیں۔ایران اور امریکہ کے درمیان جاری تنازعے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو یہ پاکستان کے لیے تباہ کن ہوگا کیونکہ پاکستان پہلے ہی افغانستان میں جنگ سے متاثر ہوا ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ

نائن الیون میں کوئی ہاتھ نہ ہونے کے باوجود پاکستان پر اس کے اثرات پڑے۔انھوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ (امریکی) جنگ پاکستان کو (افغان جنگ سے) مختلف انداز میں متاثر کرے گی لیکن ہمارے لیے سب سے پریشانی کی بات یہ ہے کہ ہم نے حال ہی میں اپنی معیشت کو مستحکم کیا ہے۔ ہم کافی مشکل وقت سے گزرے ہیں۔ اگر جنگ ہوتی ہے تو تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا اور نہ صرف پاکستان بلکہ کئی ترقی پذیر ممالک اس سے متاثر ہوں گے۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ مجھے یقین ہے صدر ٹرمپ کو اور بھی مشورے ملے ہوں گے۔ لیکن میں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور میں کسی فوجی حل کے سخت خلاف ہوں۔اس سوال پر کہ کیا انھوں نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بات کی ہے، عمران خان نے کہا کہ بالکل نہیں،اس وقت میرے لیے میرا ملک سب سے زیادہ تشویش کا باعث ہے۔ یہ 22 کروڑ لوگوں کا ملک ہے

اور یہ میرا بنیادی فرض ہے کہ میں اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دوں جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا کہ ہمیں ورثے میں بدترین اقتصادی صورتحال ملی، اس لیے میری ذمہ داری پاکستان کو درست راستے پر لانا ہے۔انھوں نے کہا کہ جب بھی وہ بیرونِ ملک رہنماؤں سے بات کرتے ہیں تو ان کے لیے یہی اہم ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ انڈیا اور کشمیر پر صرف اس لیے بات کرتے ہیں کیونکہ کشمیر کشیدگی کی بنیاد بنتا ہے،دو جوہری ممالک (مسلح) تنازعے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے میں امریکہ اور اقوامِ متحدہ سے بات کرتا ہوں کہ یہ وقت ہے کہ وہ مداخلت کریں اور ایک ممکنہ تنازعے کو جنم لینے سے روکیں۔عمران خان کی طویل سیاسی جدوجہد کے بارے میں جب ان سے پوچھا گیا کہ وزیرِ اعظم بننے سے پہلے کے تصورات اور حقیقت میں کیا موازنہ ہے تو انھوں نے کہا کہ انھوں نے کہا کہ 23 سال کی جدوجہد میں ایک منٹ کے لیے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ پاکستان میں وزیر اعظم بننا آسان کام ہوگا۔انھوں نے کہا کہ ان کے سیاست میں آنے کی وجہ یہ تھی کہ 1985 کے بعد دو بدعنوان سیاسی خاندانوں کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے ملک تباہ ہو رہا تھا۔انہوں نے کہاکہ 1985 سے پاکستان کے لیے ایک اہم موڑ تھا جب چیزیں خراب ہونا شروع ہوئیں۔ بدعنوانی ملک کو تباہ کر دیتی ہے۔

یہ ریاستی اداروں کو تباہ کرتی ہے۔ اس سے ترقی نہیں ہو پاتی کیونکہ لوگوں پر خرچ ہونے والے پیسے جیبوں میں جاتے ہیں۔ اس سے منی لانڈرنگ ہوتی ہے، اس سے آپ کی کرنسی پر بوجھ بڑھتا ہے اور اس کی قدر کم ہوتی ہے۔ اس سے مہنگائی بڑھتی ہے۔ میں کرپشن کے خلاف لڑنے آیا تھا۔ لیکن مجھے اندازہ تھا کہ جب بھی میں اقتدار میں آؤں گا، یہ سب سے بڑی مشقت ہوگی۔ اور یہ رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ انھیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی جدوجہد رہی ہے۔اس جدوجہد کے بارے میں انھوں نے کہا کہ یہ میرے ملک کے لیے ہے۔ میرے ملک نے مجھے اتنا کچھ دیا، عزت اور پیار دیا، اور میں کھیل چھوڑنے کے بعد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا، کھیل میں ایک مقام پر پہنچنے کے بعد آپ ساری زندگی بس کھیل کے بارے میں بات کرتے رہیں اور آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔انھوں نے کہا کہ وہ سیاست میں کسی ذاتی فائدے کے لیے نہیں آیا بلکہ یہ ہمیشہ سے ایک مشن تھا’جب ہم بڑے ہو رہے تھے تو پاکستان خطے میں تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور ہم نے ملک کو نیچے جاتے دیکھا۔ اس لیے میں کوشش کر رہا ہوں کہ اپنے ملک کو اوپر اٹھا سکوں۔ اور مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں بہت صلاحیت ہے۔ ہم نے بہت مشکل ڈیڑھ سال گزارا ہے مگر مجھے ترقی کی امید ہے۔

موضوعات:



کالم



مشہد میں دو دن (دوم)


فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…

ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

حافظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ میں انہیں 1995ء سے…

مرحوم نذیر ناجی(آخری حصہ)

ہمارے سیاست دان کا سب سے بڑا المیہ ہے یہ اہلیت…

مرحوم نذیر ناجی

نذیر ناجی صاحب کے ساتھ میرا چار ملاقاتوں اور…

گوہر اعجاز اور محسن نقوی

میں یہاں گوہر اعجاز اور محسن نقوی کی کیس سٹڈیز…