بس مولانا کو روکیں

8  اکتوبر‬‮  2019

بودھ بھکشو عورت کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے‘ یہ ویرانوں میں زندگی گزار تے تھے‘بھکشوﺅں کی کتاب میں لکھا ہے دو بھکشو جنگل میں پیدل سفر کر رہے تھے‘ راستے میں ندی آ گئی‘ یہ ندی پار کرنے کے لیے پانی میں اترنے لگے تو ایک بھکشو نے دیکھا چار پانچ سال کی بچی ندی کے کنارے کھڑی ہو کر رو رہی ہے‘ بھکشو اس کے پاس گیا اور رونے کی وجہ پوچھی‘ بچی نے بتایا وہ ندی کے دوسرے کنارے پر گاﺅں میں رہتی ہے‘ رشتے داروں کے ساتھ ادھر آئی تھی۔

جنگل میں کھیلتی رہی اور رشتے دار واپس چلے گئے ‘وہ اب اکیلی ندی پار نہیں کر سکتی‘ بھکشو نے اسے اٹھا کر کندھے پر رکھا‘ ندی پار کی‘ بچی کو اتارا اور ساتھی کے ساتھ آگے چل پڑا‘ پانچ سات کلو میٹر بعد اس کے ساتھی نے اچانک سر اٹھایا‘ اس کی طرف دیکھا اور کہا ”تم پاپی ہو“ بھکشو نے حیرت سے پوچھا ”میں نے کیا پاپ کیا“ ساتھی بولا ”تم نے ناری کو کندھے پر بٹھا کر ندی پار کرائی“ پہلے بھکشو نے قہقہہ لگایا اور کہا ”میں نے اس بچی کو ندی کے کنارے اتار دیا تھا لیکن تم ابھی تک اسے کندھے پر بٹھا کر چل رہے ہو“۔پنجاب میاں شہباز شریف اورپاکستان میاں نواز شریف کو بھول جانا چاہتا ہے‘ لوگ انہیں بھول بھی جاتے ہیں لیکن عمران خان نواز شریف اور عثمان بزدار عوام کو میاں شہباز شریف کو بھلانے نہیں دے رہے‘ یہ 13 ماہ گزرنے کے بعد بھی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف دونوں کے کندھوں پر سوار ہیں‘ یہ انہیں نیچے نہیں اترنے دے رہے‘عوام روزانہ مان لیتے ہیں 2018ءکے انتخابات میں عمران خان ہی کو ووٹ ملے تھے‘ لوگ میاں برادران کو کرپٹ اور نااہل بھی مان لیتے ہیں اور عوام اس پر بھی یقین کر لیتے ہیں یہ دونوں بھائی ملک کی تباہی کے ذمہ دار ہیں لیکن حکومت کی تسلی اس کے باوجود نہیں ہو رہی‘ پاکستان مسلم لیگ ن کی ساری قیادت جیلوں میں پڑی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے بھی جیلوں کے پھاٹک کھل چکے ہیں‘ بلاول بھٹو کے علاوہ پارٹی کے تمام اہم لوگ جلد جیلوں میں ہوں گے مگر حکومت اس اچیومنٹ کے باوجود خوش نہیں!۔

یہ روز شریف شریف اور زرداری‘ زرداری کی تسبیح کرتے رہتے ہیں‘ یہ ”مجرموں“ کو مرنے نہیں دے رہے‘یہ ان لوگوں کو مرنے اور تاریخ کے قبرستان میں دفن کیوں نہیں ہونے دے رہے؟ مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی! قوم ان لوگوں کو روز بھول جاتی ہے‘ قوم انہیں مکمل طور پر فراموش بھی کرنا چاہتی ہے لیکن پنجاب میں جب بھی بارش آ جائے‘ سٹریٹ کرائمز بڑھ جائیں‘ پی کے ایل آئی نامکمل رہ جائے‘ اورنج لائین ٹرین نہ چل پائے‘ میٹرو کے کرایوں میں اضافہ ہو جائے۔

سرکاری پھول‘ پودے اور گملے چوری ہو جائیں‘ گلی محلوں میں گندگی کے انبار لگ جائیں‘ پولیس بندے مار دے یا پھر ڈینگی پھوٹ پڑے عثمان بزدار فوراً لوگوں کو یاد کرا دیتے ہیں لاہور میں ایک میاں شہباز شریف بھی ہوتا تھا اور وہ لانگ بوٹ پہن کر پانی اور کیچڑ میں اتر جاتا تھا‘ وہ زینب جیسے واقعات کے بعد آئی جی کو قصور بھجوا دیتا تھا اور وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر سڑکوں‘ پلوں‘ ریلوے ٹریکس اور انڈرپاسز کا جائزہ لیتا تھا‘ میں سمجھتا ہوں پنجاب میں جب تک عثمان بزدار پلس موجود ہے۔

لوگ اس وقت تک میاں شہباز شریف کو نہیں بھول سکیں گے‘ یہ اس وقت تک پچھلے دس سالوں کو یاد کرتے رہیں گے‘ صوبے میں جب بھی کوئی حادثہ ہو گا‘ جب بھی کوئی بحران پیدا ہو گا‘ جب بھی سفارش پر کسی کا تقرر یا تبادلہ ہو گا‘ حکومت کو جب بھی کسی محکمے کے لیے کوئی سربراہ نہیں ملے گا اور لوگ جب بھی کسی کو سی ایم یا وزیراعلیٰ کہیں گے تو انہیں بے اختیار میاں شہباز شریف یاد آ جائے گا۔میں پچھلے دس بارہ برسوں سے اپنے ان خیالات کی وجہ سے گالیاں کھا رہا ہوں۔

پاکستان تحریک انصاف کے جذباتی نوجوان مجھے بکاﺅ اور شریف خاندان کا ملازم تک کہتے ہیں‘ یہ لوگ جب تک جی چاہے یہ کہتے رہیں مجھے فرق پڑا اور نہ پڑے گا تاہم حقیقت وہی رہے گی میں جس کا اعلان پندرہ برسوں سے کر رہا ہوں اور شاید آئندہ بھی کرتا رہوں گا‘ مجھے یاد ہے میں 2014ءسے 2019ءتک اکیلا ہوتا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے عمران خان اور عثمان بزدار جیسے ”فرشتے“ اتارے اور آج حسن نثار اور ہارون الرشید جیسے کٹڑ عمرانیے بھی اپنی کمر پر ہاتھ لگا لگا کر چوٹیں گن رہے ہیں۔

یہ بھی وہی کہہ رہے ہیں جو میں کہتا تھا اور ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو رہا ہے جو میرے ساتھ ہوتاتھا‘ مجھے خطرہ ہے یہ حکومت اگر مزید چھ ماہ چل گئی تو پورا پاکستان حسن نثار بن جائے گا‘ یہ بھی مان لے گا یہ نادانی میں اپنی جان پر ظلم عظیم کر بیٹھے ہیں‘ یہ خود کنوئیں میں آ گرے ہیں‘ آپ صرف تین ماہ انتظار کر لیجیے‘ آپ کو آج کے دن شان دار ترین محسوس ہوں گے اور آپ ان لوگوں سے درخواست کر یں گے آپ ہمیں 2018ءمیں نہ لے کر جائیں آپ ہمیں بس اکتوبر 2019ءمیں واپس لے جائیں۔

وہ بھی غنیمت تھا‘عثمان بزدار جو کارنامے پنجاب میں کر رہے ہیں عمران خان وہ ذمہ داری اسلام آباد میں نبھا رہے ہیں‘ یہ بھی عوام کو روز نواز شریف یاد دلا دیتے ہیں‘ آپ پچھلے دو ماہ کے دوران اسلام آباد میں کرائم کی رپورٹیں نکال کر دیکھ لیں‘ پوش علاقوں میں ڈاکے شروع ہو چکے ہیں‘ لوگوں کو سر راہ لوٹ لیا جاتا ہے‘ ایمان دار اور مخلص حکومت 13 ماہ میں ائیر پورٹ کو میٹرو کے ساتھ نہیں جوڑ سکی‘ نواز شریف یہ کام جہاں چھوڑ کر گیا تھا یہ اس سے بھی دس پندرہ کلو میٹر پیچھے جا چکا ہے۔

سی پیک بھی کفن میں لپٹ چکا ہے بس اس کی تدفین باقی ہے‘ غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھاگے مدت ہو چکی ہے بس اس کے پاﺅں کے نشان باقی ہیں اور لوکل بزنس مین کیا سوچ رہا ہے یہ ملک کے چوٹی کے بزنس مینوں نے دو اکتوبرکو آرمی چیف کو بتا دیا‘ بزنس مینوں کی آرمی چیف سے ملاقات یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے بزنس مین حکومت پر اعتبار کے لیے تیار نہیں ہیں‘ یہ بھی اب فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں‘ ملک میں سردیاں شروع ہو چکی ہیں‘ شاہد خاقان عباسی اور اقبال زیڈ احمد نیب کی حراست میں ہیں۔

حسین داﺅد کو بھی نوٹس مل چکا ہے چناں چہ ملک میں کسی بھی وقت ایل این جی کا بحران پیدا ہو جائے گا‘ سردیوں میں گیس غائب ہو جائے گی اور یوں ملک 2012ءمیں واپس چلا جائے گا جب لوگ کچا آٹا لے کر سڑکوں پر نکل کھڑے ہوتے تھے۔حکومت مسلسل دعویٰ کر رہی ہے ہم اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں‘حکومت کا یہ دعویٰ درست ہے‘ عمران خان کوواقعی اسٹیبلشمنٹ کی بے انتہا سپورٹ حاصل ہے لیکن کیا یہ سپورٹ مستقبل میں بھی جاری رہے گی؟ ۔

میرا خیال ہے نہیں‘یہ تعاون وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مشکل ہوتا چلا جائے گا‘ نومبر کے بعد حکومت کے لیے سپورٹ مزید مشکل بلکہ ناممکن ہوتی چلی جائے گی‘کیوں؟ آپ اس کیوں کے جواب میں ایک واقعہ ملاحظہ کیجیے‘ مجھے ایک بار جنرل احمد شجاع پاشا نے بتایا تھا میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ایکسٹینشن کے خلاف تھا‘ وہ مجھ سے جب بھی مشورہ کرتے تھے میں ان سے کہتا تھا‘ سر آپ اس وقت ضروری ہیں لیکن ایکسٹینشن کے بعد آپ کا امیج بہت خراب ہو گا۔

وہ میرے سمجھانے کے باوجود ایکسٹینشن لے بیٹھے‘ مجھے خبر ملی تو میں مبارک باد پیش کرنے کے لیے آرمی چیف ہاﺅس چلا گیا‘ میں نے انہیں مبارک باد دی اور اس کے بعد کہا‘ سر اب آپ کو بہت احتیاط سے چلنا پڑے گا‘ وہ اس وقت سگریٹ پی رہے تھے‘ انہوں نے سگریٹ بجھایا اور میری طرف دیکھ کر بولے ‘ پاشا کیا مطلب؟ میں نے عرض کیا‘ سر آپ اب اگر حکومت کی کرپشن یا نااہلی پر بولتے ہیں تو لوگ آپ کو احسان فراموش کہیں گے اور آپ اگر خاموش رہتے ہیں تو آپ کو ان لوگوں کا حصے دار سمجھا جائے گا۔

جنرل کیانی تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر سر جھٹک کر بولے ”پاشا ڈونٹ وری‘ میں اصولوں پر سمجھوتا نہیں کروں گا“ جنرل پاشا نے اس کے بعد کہا” میرا خدشہ سچ ثابت ہوا‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت جاتے جاتے جنرل کیانی کی نیک نامی بھی ساتھ لے گئی“ مجھے مستقبل قریب میں جنرل باجوہ بھی اسی صورت حال کا نشانہ بنتے دکھائی دے رہے ہیں‘ یہ اگر نومبر کے بعد حکومت کی بدانتظامی پر خاموش رہتے ہیں تو لوگ ان پر تنقید کریں گے اور یہ اگر حکومت کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو حکومت کے ساتھ ساتھ یہ بھی بدنام ہوجائیں گے‘ کیوں؟ ۔

کیوں کہ قوم ملک کی دونوں پارٹیوں کی قیادت کو کرپٹ سمجھتی تھی لیکن عمران خان کی غلطیاں انہیں بے گناہ ثابت کرتی جا رہی ہیں‘ عوام کو یہ آج سچے اور ایمان دار دکھائی دے رہے ہیں بس عدالت کی مہر باقی ہے اور یہ مہر کسی بھی وقت لگ جائے گی‘ آپ چند ہفتوں میں ان لوگوں کو ایک ایک کر کے جیل سے باہر آتے دیکھیں گے‘ حکومت اس محاذ پر بھی بری طرح پسپا ہو جائے گی لہٰذا ہم تاریخ کے جوہڑ میں جا گریں گے‘ ہم نے 1971ءمیں ایک فاش غلطی کی تھی۔

شیخ مجیب الرحمن نے آزادانہ الیکشن میں اکثریت حاصل کر لی تھی‘ حکومت بنانا اس کا حق تھا‘ ہم نے اسے یہ حق نہ دے کر ملک توڑ دیا‘ ہم آج اس حکومت کو بچا کر 1971ءسے بھی بڑی غلطی کریں گے‘ یہ لوگ بنیادوں کے ساتھ بیٹھ رہے ہیں‘ یہ جاتے جاتے اپنے تمام ستونوں کو بھی ساتھ لے جائیں گے اور مجھے نہیں لگتا اسٹیبلشمنٹ مستقبل میں حکومت کا ستون بننا پسند کرے گی۔ملک واقعی خطرناک دور میں داخل ہو چکا ہے‘ ہماری سیاسی حماقتیں ملک کو چلنے کے قابل نہیں چھوڑیں گی۔

میں نے 2014ءمیں عمران خان سے کہا تھا آپ دھرنے کی غلطی بھی نہ کریں اور اپنی خواہشوں کا تابوت علامہ طاہر القادری کے مدرسے کے بچوں کے کندھوں پر بھی نہ رکھیں‘ تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی‘ عمران خان نے پوچھا تھا‘ کیوں؟ میں نے عرض کیا تھا‘ ہم نے اگر دھرنے سے ایک حکومت گرا دی تو پھر یہ روایت پڑ جائے گی‘ ملک میں اگلا دھرنا مولانا فضل الرحمن دیں گے اور پورا ملک مل کر بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔

عمران خان نے میری بات نہیں مانی چناں چہ یہ آج مولانا فضل الرحمن کا نشانہ بننے کے لیے تیار بیٹھے ہیں‘ میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں اگر مولانا یہ حکومت گرانے میں کام یاب ہو گئے تو پھر اس ملک کو کوئی مستحکم حکومت نصیب نہیں ہو سکے گی‘ ہم سب جتھوں کا لقمہ بن جائیں گے لہٰذا کچھ بھی کرنا پڑے آپ مولانا کو روکیں‘آپ سسٹم کو بچائیں‘ مولانا نہ رکے تو پھر کچھ بھی نہیں بچے گا‘ حکومت اور اپوزیشن مل کر مارشل لاءکا مطالبہ کریں گی۔



کالم



مشہد میں دو دن (دوم)


فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…

ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

حافظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ میں انہیں 1995ء سے…

مرحوم نذیر ناجی(آخری حصہ)

ہمارے سیاست دان کا سب سے بڑا المیہ ہے یہ اہلیت…

مرحوم نذیر ناجی

نذیر ناجی صاحب کے ساتھ میرا چار ملاقاتوں اور…

گوہر اعجاز اور محسن نقوی

میں یہاں گوہر اعجاز اور محسن نقوی کی کیس سٹڈیز…