کام یابی کا شاہ جہانی فارمولا

14  جولائی  2019

مغل شہنشاہ جہانگیر کے پانچ بیٹے تھے‘خسرو مرزا‘پرویز مرزا‘شاہ جہاں مرزا‘شہریار مرزااورجہاندار مرزا‘ شہزادہ شہریارچوتھا بیٹا تھا اور شاہ جہاں تیسرا‘ ملکہ نور جہاں نے جہانگیر سے دوسری شادی کی تھی‘ شیرافگن خان اس کا پہلا خاوند تھا‘ اس سے اس کی بیٹی تھی‘ مہرالنساء بیگم‘ نور جہاں اپنی بیٹی کی شادی شہریار سے کرنا چاہتی تھی اور اس کی خواہش تھی شہریار شادی کے بعد ہندوستان کا بادشاہ بن جائے‘ جہانگیر اپنی بیگم نورجہاں کے زیر اثر تھا‘۔

مورخ لکھتے ہیں جہانگیر کہا کرتا تھا‘میرے لیے ایک جام‘ ایک پارچہ گوشت اور نور جہاں کا ایک دیدار کافی ہے لیکن ملکہ کے تمام تر اثر کے باوجودشہنشاہ شہریار کی بجائے شاہ جہاں کو بادشاہ بنانا چاہتا تھا‘ ملکہ اور بادشاہ کے درمیان رسہ کشی شروع ہو گئی‘ ملکہ بار بار کہتی تھی اور بادشاہ بار بار ٹال جاتا تھا لیکن یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک جاری نہ رہ سکا‘ ایک دن فیصلے کی گھڑی آ گئی‘ ملکہ نے بادشاہ سے سیدھا سیدھا پوچھ لیا ”آپ شہریار کو ولی عہد بنائیں گے یا نہیں! مجھے صاف جواب چاہیے“ بادشاہ پھنس گیا‘ وہ تھوڑی دیر سوچتا رہا اور پھر آہستہ سے بولا ”ہم یہ فیصلہ دونوں شہزادوں پر چھوڑتے ہیں‘ ہم دونوں کو بلاتے ہیں‘ میں دونوں سے ایک سوال کروں گا اور جس کا جواب اچھا ہو گا ہم اسے ہندوستان کا بادشاہ نامزد کر دیں گے“ ملکہ مان گئی‘ بادشاہ نے دونوں شہزادوں کو طلب کیا اور سامنے کھڑا کر دیا‘ شہزادے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے‘ بادشاہ نے دونوں سے صرف ایک سوال کیا ”ہم اگر آپ کو ہندوستان کا بادشاہ بنا دیں تو آپ اس ملک کی کس طرح حفاظت کریں گے؟“ بادشاہ نے دونوں کو سوچنے کے لیے ایک ایک منٹ دے دیا‘ ایک منٹ بعد شہزادہ شہریار بولا ”ابا حضور آپ نے اگر مجھے یہ ذمہ داری سونپی تو میں ماں کی طرح ہندوستان کی خدمت کروں گا“ بادشاہ نے سنا اور سر ہلا کر پوچھا ”شہزادہ حضور ماں کی طرح کیوں‘ باپ یا بچے کی طرح کیوں نہیں؟“۔

شہزادے نے فوراً جواب دیا ”ماں ہمیں جنم بھی دیتی ہے‘ ہماری حفاظت بھی کرتی ہے اور ہماری پرورش بھی‘ یہ نہ ہو تو ہم پیدا ہوں اور نہ پل کر جوان ہوں‘ ماں اللہ کی نظر میں بھی مقدس ترین ہستی ہے‘اللہ نے اس کے پاؤں میں جنت رکھی ہے اور برے سے برا مسلمان بھی جنت کواپنے ہاتھوں سے نہیں جانے دیتا چناں چہ میں سعادت مند بیٹے کی طرح اپنے ملک کو ماں سمجھ کر اس کی خدمت کروں گا“ بادشاہ اس کے بعد شاہ جہاں کی طرف مڑا اور اس سے پوچھا ”اور شہزادہ حضور اگر آپ کو یہ ذمہ داری سونپی جائے تو آپ کیا کریں گے؟“۔

شاہ جہاں نے ادب سے عرض کیا ”ظل الٰہی! میں اس ملک کی خدمت نہیں کروں گا‘ میں اس سے محبوب کی طرح محبت کروں گا“ یہ جواب سن کر بادشاہ‘ ملکہ اور شہریار تینوں حیران رہ گئے اور انہوں نے شاہ جہاں سے پوچھا ”ہم آپ کا مطلب نہیں سمجھے“ شاہ جہاں نے جواب دیا ”حضور ماں سے محبت مسلمہ ہے لیکن آج تک کسی بیٹے نے اپنی ماں کے لیے جان نہیں دی‘ دنیا میں صرف محبوبہ وہ رشتہ ہے جس کے لیے لوگ جان دیتے بھی ہیں اور جان لیتے بھی ہیں اور میں اس ملک کو اپنی محبوبہ سمجھوں گا اور محبوب کی طرح اس سے عشق کروں گا اور مجھے اگر اس عشق کے لیے جان لینی پڑی تو میں لوں گا اور مجھے اگر اپنی جان دینی پڑی تو میں وہ بھی دوں گا“ یہ جواب سن کر بادشاہ کے منہ سے قہقہہ نکل گیا‘ اس نے ملکہ نور جہاں کی طرف دیکھا اور ملکہ نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔

جہانگیر28 اکتوبر1627ء کو انتقال کر گیا اور شاہ جہاں نے تخت سنبھال لیا‘ وہ 30سال ہندوستان کا بادشاہ رہا‘ یہ 30سال ہندوستان کی تاریخ کے شاندار ترین سال تھے‘ آپ کو آج ہندوستان میں مغلوں کی جتنی نشانیاں ملتی ہیں وہ سب ان 30برسوں میں تخلیق ہوئیں اور ان کے پیچھے شاہ جہاں کا دماغ اور جذبہ تھا‘ آپ تاج محل دیکھ لیجیے‘ یہ دنیا کے سات عجوبوں میں شامل ہے‘ یہ ہندوستان میں گنبد والی پہلی عمارت تھی‘ شاہ جہاں نے اس کے لیے اٹلی‘ ترکی اور ایران سے ایکسپرٹس منگوائے اور اس پر اس دور میں 32ملین ہندوستانی روپے خرچ ہوئے۔

تاج محل اس زمانے میں دنیا کی مہنگی ترین عمارت تھی‘ آپ دہلی کا لال قلعہ دیکھ لیجیے‘ یہ آج عالمی سطح پر بھارت کی نشانی ہے‘ یہ قلعہ بھی شاہ جہاں نے بنوایا‘ لاہور قلعے کی موتی مسجد تعمیر کا عظیم معجزہ ہے‘ آپ اس کے اندر جا کر دیکھیں یہ چھوٹی سی مسجد آپ کی روح کا حصہ بن جائے گی‘ یہ شاہ جہاں نے بنوائی تھی‘ لاہور قلعے کی بیرونی دیوار اور شیش محل بھی شاہ جہاں نے بنوایا تھا‘ شاہ جہاں نے شیش محل کی جگہ سونے کا محل بنوایا تھا‘ ملکہ ممتاز محل کو پتا چلا تو اس نے کہا‘ بادشاہ سلامت سونے کے محل پوری دنیا میں ہیں‘ آپ اگر مجھ سے واقعی محبت کرتے ہیں تو آپ مجھے ستاروں کا محل بنا کر دیں۔

بادشاہ نے حکم دیا”سونے کا محل گرا دیا جائے“ محل گرا دیا گیا‘ بادشاہ نے اس کے بعد شیش محل کی ڈرائنگ بھجوائی اور شیش محل بن گیا‘ آپ کسی دن رات کے وقت شیش محل جائیں‘ چھوٹی سی ٹارچ جلائیں اور اس کے بعد ستاروں کو زمین پر اترتے ہوئے دیکھیں‘ آپ لاہور کی مسجد وزیر خان دیکھیں‘ دہلی کا قطب مینار دیکھیں‘ یہ مینار قطب الدین ایبک نے بنوایا تھا لیکن اس کی توسیع اور مضبوطی کا کام شاہ جہاں نے کرایا‘ آپ سری نگر اور لاہور کے شالیمار گارڈن دیکھ لیں‘ آپ دہلی کی جامع مسجد دیکھ لیں۔

پ تخت طاؤس کو بھی لے لیجیے‘ یہ تخت بھی شاہ جہاں نے1635ء میں بنایا تھا اور اس پرسونااور قیمتی ہیرے جواہرات لگے تھے‘ آپ کوہ نور ہیرے کو لے لیجیے‘ یہ ہیرا بھی شاہ جہاں نے حاصل کیا تھا اور اپنے تاج میں لگوایا تھا اور آپ ٹھٹھہ کی شاہ جہاں مسجد کو بھی دیکھ لیجیے‘ یہ دنیا کی واحد عمارت ہے جس میں 93 گنبد ہیں غرض آپ ہندوستان کی کسی بھی شاندار عمارت کی تاریخ کھود کر دیکھ لیں‘ آپ کو اس کے پیچھے شاہ جہاں ملے گا‘ شاہ جہاں کی محبت صرف یہاں تک محدود نہیں تھی بلکہ آپ مغل آرٹ‘ مغل آرکی ٹیکچر‘ مغل میوزک اور مغل لٹریچربھی لے لیجیے۔

یہ سارے فن شاہ جہاں کے دور میں پروان چڑھے اور اسی کے زمانے میں نقطہ کمال تک پہنچے چناں چہ شاہ جہاں نے جہانگیر سے جو کہا تھا وہ کر دکھایا‘ اس نے ملک سے واقعی محبوبہ کی طرح محبت کی‘ اس نے ثابت کر دیا ملکوں کو وہی لوگ بناتے ہیں جو ملکوں سے محبوب کی طرح محبت کرتے ہیں۔میں جب بھی لوگوں کو ماں یا باپ کی قسم کھاتے دیکھتا ہوں تو میں ہنس کر ان سے کہتا ہوں ”ابا یا اماں نہیں محبوبہ یا بیوی کی قسم کھاؤ“ اور وہ قہقہہ لگا کر منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے محبت میں جنون رکھا ہے‘ انسان اپنی ماں یا اولاد سے گفتگو سے تھک جاتا ہے‘ یہ عبادت کو زیادہ وقت نہیں دے گا لیکن محبوب یا محبوبہ سے ساری ساری رات گفتگو کرتا رہے گا‘ یہ موبائل پر گھنٹوں بات کرے گا لیکن تھکے گا نہیں‘ یہ مل مل کر اور دیکھ دیکھ کر بھی نہیں اکتائے گا اور عاشق ایک دوسرے کا دہائیوں تک انتظار بھی کر لیں گے‘ محبت کمال جذبہ ہے‘ دنیا جہاں کی تخلیقات اس جذبے سے جنم لیتی ہیں‘ آپ آرٹ کو دیکھ لیجیے‘ ادب‘ شاعری‘ تصوف‘ آرکی ٹیکچر اور بزنس کو دیکھ لیجیے‘ آپ کو ہر بڑا فن کار محبت کی کوکھ سے جنم لیتا نظر آئے گا۔

شاعر صرف شاعر ہوتا ہے‘ محبت آتی ہے اور عام شاعر عظیم ہو جاتا ہے‘ دکان دار صرف دکان دار اور کھلاڑی صرف کھلاڑی ہوتا ہے‘ محبت ڈنک مارتی ہے اور پرچون کا دکان دار بزنس مین اور عام کھلاڑی بین الاقوامی بن جاتا ہے‘ انسان 28 جذبے ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے‘ ان 28 جذبوں میں صرف محبت میں ایٹمی طاقت ہے‘ یہ انسان کو اندر اور باہر سے جلا کر کندن بنا دیتی ہے چناں چہ میرے پاس جب بھی کوئی نوجوان کام یابی یا ترقی کا نسخہ لینے آتا ہے تو میں اسے شاہ جہاں کا یہ واقعہ سناتا ہوں اور اس سے کہتا ہوں‘ تم جتنا وقت اپنی محبوبہ یا محبوب کو دیتے ہو تم اس سے آدھا وقت اپنے مقصد کو دے دو۔

تم جتنی محبت کسی دوسرے سے کرتے ہو تم اس سے آدھی محبت اپنے ارادے سے کر لو تم چند برسوں میں وہاں پہنچ جاؤ گے جس کا تم نے تصور بھی نہیں کیا‘ تم بس ایک دفعہ شاہ جہاں بن جاؤ اور اس کے بعد تم تماشا دیکھو‘ تم دنیا کو حیران کر دو گے‘ خواہش اور ارادے میں بڑا فرق ہوتاہے۔ ”میں یہ چاہتا ہوں“ اور ”میں یہ کر رہا ہوں“ آپ دونوں میں زمین آسمان کا فرق دیکھیے۔ ”میں کر رہا ہوں“ ارادہ ہے اور ”میں چاہتا ہوں“ خواہش ہے‘ ترقی اورکام یابی ارادے سے ملتی ہے خواہش سے نہیں اور ارادہ محبت سے جنم لیتا ہے۔

آپ جتنی محبت کرتے جاتے ہیں آپ کا ارادہ اتنا ہی پختہ ہوتا جاتا ہے‘ آپ اپنے گول کے اتنے ہی قریب ہوتے جاتے ہیں چناں چہ آپ اپنے گول سے محبت کریں‘ آپ پار لگ جائیں گے‘ دنیا میں اگر کتا بھی محبت کرے تو یہ بھی اصحاب کہف کے ساتھ جنت کا حق دار ہو جاتا ہے اور آپ تو ہیں ہی انسان‘ آپ کہاں تک نہیں پہنچ سکتے؟ فرہاد نے محبت میں چار پتھر کاٹے تھے‘ پتھر‘ نہر‘ فرہاد اور شیریں چاروں رخصت ہو گئے لیکن دنیا جب تک دنیا ہے فرہاد کی نہر محبت کی داستانوں میں زندہ رہے گی اور آپ کی خواہش تو معمولی سی کام یابی کی معمولی سی تمنا ہے‘ یہ کیوں پوری نہیں ہو گی؟۔

آپ کیسے ناکام رہ سکتے ہیں لہٰذا آپ جو چاہتے ہیں آپ اسے اپنی محبوبہ بنا لیں اور خود کو محبوب اور اس کے بعد آپ کمال دیکھیے‘ آپ اپنی کھلی آنکھوں سے وقت اور حالات کو تبدیل ہوتے دیکھیں گے۔آپ یقین کریں اگر محبت میں جان نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کبھی نہ کہتا‘تم اگر مجھے پانا چاہتے ہو تو تم مجھ سے اپنے مال‘ جان اور اولاد سے زیادہ محبت کرو‘ میں تمہیں مل جاؤں گا‘ محبت تو انسان کو خدا تک پہنچا سکتی ہے‘ یہ چھوٹی‘ معمولی سی کام یابی کیا چیز ہے؟ اور یہ ہے کام یابی کا شاہ جہانی فامولا!۔



کالم



مشہد میں دو دن (دوم)


فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…

ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

حافظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ میں انہیں 1995ء سے…

مرحوم نذیر ناجی(آخری حصہ)

ہمارے سیاست دان کا سب سے بڑا المیہ ہے یہ اہلیت…

مرحوم نذیر ناجی

نذیر ناجی صاحب کے ساتھ میرا چار ملاقاتوں اور…

گوہر اعجاز اور محسن نقوی

میں یہاں گوہر اعجاز اور محسن نقوی کی کیس سٹڈیز…