آپ شیمپو تو روز استعمال کرتے ہوں گے کیا آپ کو پتا ہے کہ بالوں کیلئے یہ انتہائی مفید چیز کس نے ایجاد کی ؟

16  جنوری‬‮  2019

لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) ہم میں سے اکثر لوگ شیمپو ہر روز استعمال کرتے ہیں لیکن ہم نے شاید کبھی غور نہ کیا ہوگا کہ بالوں کیلئے یہ انتہائی مفید چیز کس نے ایجاد کی ؟ تو چلیے آپ کو بتاتے ہیں کہ کیسے ایک عام سے ہندوستانی مسلمان نے شیمپو ایجاد کی تھی۔شیمپو حجاموں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے شیخ دین محمد کی ایجاد ہے اور اسی مناسبت سے آج گوگل کی جانب سے

ان کے نام کا ڈوڈل بھی دیا گیا ہے۔ شیخ دین محمد 1759 میں متحدہ ہندوستان کے شہر پٹنہ میں ایک حجام گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 11 برس کی عمر میں انگریز فوج میں نوکری کی ۔ وہ جنگ تو نہیں لڑتے تھے البتہ چمپی وغیرہ کیا کرتے تھے۔انگریزوں کے ساتھ دین محمد کی محبت اتنی زیادہ اور اعتماد اس عروج کو پہنچا ہوا تھا کہ انگریزوں نے اسے کئی شہروں کے حالات جاننے کیلئے بھیجا۔ انگریز کی نوکری کے دوران ان پر ایک بار قاتلانہ حملہ بھی ہوا جس میں وہ بڑی مشکل سے جان بچا کر نکلے، اس حملے کے بعد دوسرے کسی جان لیوا حملے کے خوف سے انہوں نے 1783 میں فوج سے استعفیٰ دے کر آئرلینڈ کا سفر کیا اور ایک آئرش خاتون جین ڈیلی سے شادی کرلی۔1807 میں دین محمد اپنے خاندان کے ہمراہ آئرلینڈ سے آ کر لندن میں بس گئے۔انہوں نے لندن میں گوروں کو دیسی کھانے کھلانے کیلئے ریستوران کھولا جو زیادہ کامیاب نہ ہوسکا جس کے بعد انہوں نے خاندانی کام (حجام) کو کاروباری بنیادوں پر شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ شیخ دین محمد نے جنوبی ساحلی شہر برائٹن میں ایک حمام کھول لیا جس میں جڑی بوٹیاں ملے پانی سے غسل کروایا جاتا تھا اور اس کے بعد مخصوص قسم کے تیلوں سے مساج اور چمپی کی جاتی تھی۔انگریزوں کے لیے یہ نئی چیز تھی۔ سٹیم باتھ اور پھر مساج سے تھکے ہوئے بدن پل بھر میں تازہ دم ہو جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ کام چل پڑا اور جلد ہی شہر کی اشرافیہ دین محمد کی خدمات سے مستفید ہونے لگی۔بی بی سی کے مطابق دین محمد نے زبردست کاروباری سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اخباروں میں اشتہار دینا شروع کیے جن میں وہ دعویٰ کرتے تھے کہ سٹیم باتھ کے پانی اور چمپی کے تیلوں میں وہ مخصوص قسم کی جڑی بوٹیاں استعمال کرتے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ ہندوستان

کی قدیم اور توانا طبی روایات سے استفادہ کر رہے ہیں۔دین محمد کی چمپی جلد ہی دور دور تک مشہور ہو گئی۔ یہاں تک کہ شاہی خاندان کے بعض افراد بھی ان کے گاہکوں میں شامل ہو گئے اور ان کی چمپی کے گن گانے لگے۔ ان کا کاروبار اس قدر کامیاب ہوا کہ انہوں نے اپنے حمام کی کئی شاخیں کھول لیں۔یہی لفظ چمپی بگڑ کر انگریزی کا شیمپو بن گیا اور آج بچے بچے کی زبان پر ہے۔

موضوعات:



کالم



ناکارہ اور مفلوج قوم


پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…