سانحہ پشاور: آنسو کی بارش‘ واقعہ میں بچ جانے والی 3 سال کی بچی نے وہ انکشاف کیا کہ ہر آنکھ نم ہو جاتی ہے

19  دسمبر‬‮  2014

پشاور: سانحہ پشاور نے صرف ملک میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو دکھ اور غم میں مبتلا کردیا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ ہر انسان اس واقعے کی بربریت کو دیکھ کر خون کے آنسو رو رہا ہے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ متاثرہ اسکول کے درو دیوار دہشت اور ہولناکی کی دردناک کہانی سنا رہے ہیں لیکن اس سانحہ میں کچھ خوش قسمت بچے موت کے منہ سے بچ کر زندگی کی طرف لوٹ آئے جس میں نرسری کلاس کی طالبہ 3 سال کی ایمن بھی شامل ہے اورجب ڈاکٹر بن کر زخمی بچوں کا علاج کرنے کا عزم لیے ایمن نے معصوم زبان سے اسکول کے اندر کی کہانی بیان کی تو ہر آنکھ اشکبار ہوگئی۔ ایمن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ میں اپنی کلاس میں موجود تھی کہ 3 گندے لوگ اندر داخل ہوئے جن کے ہاتھوں میں ایسی چیزیں تھی جس سے خوفناک آوازیں آرہی تھیں جو میں فلموں میں سنتی تھی، وہ لوگ کسی اور ہی زبان میں چیخ رہے تھے اسی دوران میری ٹیچر نے مجھے کہا کہ اپنی ڈیسک کے پیچھے چھپ جاؤ اور جب تک میں نہ کہوں باہر نہیں آنا۔ کچھ دیر بعد میں نے بچوں کی درد بھری چیخوں کی آوازیں سنیں اور میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں کیونکہ مچھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے لیکن بچوں کا خون دیکھ کر میں بہت ڈر گئی اور ڈیسک کے پیچھے بہت دیر تک چھپی رہی۔ میری ٹیچر بھی نہیں بول رہی تھی اور ان کا خون نکل رہا تھا۔ ایمن نے معصوم بھری آواز میں بتایا کہ نہیں معلوم کہ کتنی دیرتک ڈیسک کے پیچھے چھپی رہی لیکن کافی دیر کے بعد ایک اچھا انسان اندر داخل ہوا اور میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا کہ ڈئیر باہر آجاؤ اب تم محفوظ ہو اس کے بعد میں باہر آئی تو میرے والدین کی خوشی کی انتہا نہ تھی۔ ایمن نے کہا کہ میں ایک بہادر بچی ہوں اوراسی اسکول میں تعلیم جاری رکھوں گی، اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلوں گی اور بڑی ہوکر ڈاکٹر بنوں گی۔ ایمن کے والد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی بیٹی نے دہشت کے اس ماحول میں جس بہادری کا ثبوت دیا انہیں اس پر فخر ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ جب اسکول میں آپریشن جاری تھا تو میں پاگلوں کی طرح اپنے دونوں بچوں کا منتظر تھا اور جب میں نے ایمن کو دیکھا تویہ خوشی میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ میرا بیٹا اب بھی اسپتال میں شدید زخمی حات میں زیرعلاج ہے۔ واضح رہے کہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 132 بچوں سمیت 141 افراد شہید اور 120 سے زائد زخمی ہوئے۔

 



کالم



بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟


’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…