کوئٹہ(آن لائن) کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے عالمی شہریت یافتہ پاکستانی باکسر محمد وسیم نے کہا ہے کہ وہ دو ہزار بیس میں ورلڈ باکسنگ چیمپئن شپ کے مقابلے پاکستان میں کرانے کیلئے کوشش کررہے ہیں امید ہے کہ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ مقابلہ پاکستان میں منعقد ہوگا۔ عرب خبر رساں ادارے کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں سابق عالمی چمپئن کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ
وہ دو ہزار بیس میں پاکستان کیلئے ورلڈ چمپئن بنیں گیان کا کہنا تھا کہ دبئی میں حالیہ مقابلے کے بعد وہ آرام کررہے ہیں اور اپنے خاندان کو وقت دے رہے ہیںانہوں نے کہا کہ تین چار ہفتے بعد میری مینجمنٹ کمپنی اگلے مقابلے کا فیصلہ کرے گی میری اگلی فائٹ ایلیمنٹر فائٹ ہوگی جو ورلڈ ٹائٹل کیلئے ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ میں انشااللہ 2020 میں پاکستان کے لیے ورلڈ چمپیئن بنوں گا کیونکہ میں اتنی سخت محنت کررہا ہوںمحمد وسیم نے 22 نومبر کو دو مرتبہ کے ورلڈ چیمپیئن میکسیکو کے گنیگن لوپز کو سخت مقابلے کے بعد آٹھویں رانڈ میں شکست دی۔ اس مقابلے کے بارے میں محمد وسیم کا کہنا تھا کہ میں نے حریف کھلاڑی کو ناک آٹ کرنے کی کافی کوشش کی مگر وہ بڑا ٹرِکی تھا اس کا پروفیشنل باکسنگ کا تجربہ مجھ سے بہت زیادہ تھا، میرے صرف دس مقابلے ہوئے تھے اور اس نے 40 کے قریب مقابلے کھیلے ہیں، و ہ دو مرتبہ کا ورلڈ چمپیئن بھی رہا مگر میں نے اچھی باکسنگ کھیلی اور اسے شکست دی محمد وسیم حکومتی سرپرستی نہ ملنے کی وجہ سے کئی مرتبہ عالمی مقابلوں میں شرکت سے محروم رہے۔ کئی بار انہوں نے مایوسی کا اظہار کرکے بیرون ملک کی شہریت لینے کا عندیہ بھی دیا۔ سابق ورلڈ چمپیئن کا کہنا ہے کہ کچھ مسائل تھے وہ حل ہوگئے۔میں پاکستان کے سبز پرچم کی ہی نمائندگی کروں گا۔ میری مینجمنٹ کمپنی وہ تمام سہولیات اور ضروریات فراہم کررہی ہے ۔
میں پانچ ان باکسرز میں شامل ہوں جس کی میری مینجمنٹ کمپنی سب سے زیادہ خیال کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے ایک ٹریننگ کیمپ پر 70ہزار سے 80ہزار پانڈ کے اخراجات آتے ہیں۔ پاکستان میں کھیل کے اداروں کے پاس اتنے فنڈز نہیں ہوتے۔انہوں نے بتایا کہ ہم نے ایک کمرے میں قائم کوئٹہ یوتھ باکسنگ کلب میں باکسنگ کھیلی، یہی سے باکسنگ سیکھی۔ 50 سال سے یہی کلب چل رہا ہے اور
اب بھی اسی طرح ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کوئٹہ میں ایک بہترین اکیڈمی بناں جس کے لیے حکومت کو میری مدد کرنی چاہیے۔وہ بتاتے ہیں کہ کوئٹہ میں باکسنگ کا سب سے زیادہ ٹیلنٹ ہے۔ پاکستان میں اس طرح کا ٹیلنٹ کہیں بھی نہیں۔ سب سے اچھے باکسر یہاں کے ہیں۔ میں نئے ٹیلنٹ کو تربیت دینا چاہتا ہوں تاکہ وہ بھی میری طرح باہر جاکر پوری دنیا میں سبز ہلالی پرچم لہرائیں ۔کوئٹہ میں اگر باکسنگ اوپر آئے گی،
ہم اور چمپیئن بنائیں گے، پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن ہوگا۔ میری کوشش ہوگی کہ اپنی مینجمنٹ کمپنی کو پاکستان میں لیکر آں تاکہ وہ میری طرح مزید کھلاڑیوں کو سپورٹ کریں۔محمد وسیم کے مطابق اس سے پہلے جو میرا پروموٹر تھا وہ غیر پیشہ ورانہ تھا جس نے مجھے بہت سخت فائٹ لیکر دیئے لیکن اس کے باوجود میں نے وہ مقابلے جیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا کا کوئی ایسا باکسر نہیں جو تین چار
مقابلوں میں ڈبلیو بی سی کا چمپیئن بنا ہو۔ میں واحد پاکستانی باکسر ہوں جس نے ایسا کیا۔ میں پانچویں مقابلے میں ہی ورلڈ رینکنگ میں پہلے نمبر پر آیا انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بات حوصلہ دیتی ہے کہ میں ایک چھوٹے علاقے سے اٹھ کر اتنے بڑے مقام تک پہنچا ہوں ۔ یہاں پر کوئی بھی سہولیات نہیں تھیں۔ میں چاہتا ہوں میں ایسے مقام تک جاں جہاں آج تک کوئی پاکستانی کیا دنیا کا کوئی بھی باکسر نہیں پہنچا۔
محمد وسیم نے بتایا کہ 1998 میں جب میں نے آٹھ نو سال کی عمر میں باکسنگ کھیلنا شروع کی تو بہت مشکلات درپیش تھیں۔ کوئی بھی سہولیات نہیں تھیں۔ خاندان کی طرف سے بھی سپورٹ نہیں تھی وہ صرف پڑھائی پر زور دیتے تھے۔ جب ہم کلب جاتے تھے توہمارے پا س جوتے نہیں ہوتے تھے۔ نہ دستانے اور نہ ہی ٹریک سوٹ ہوتا تھا۔ ہم بغیر جوتوں کے باکسنگ کھیلتے تھے انہوں نے بتایا کہ
جب مقامی سطح کے مقابلے ہوتے تھے تو ہم شرکت کے لیے 30 سے 40 کلومیٹر دور پیدل جاتے تھے۔ ہمارے پاس نہ سائیکل ہوتی تھی اور ہی نہ پیسہ۔ اس وقت گھر آتا تھا تو وہ کہتے کہ آپ پڑھیں۔ سکول جاتا تو استاد بھی کہتے کہ تنقید کرتے محمد وسیم کے مطابق کراچی میں کھیلنے جاتے تو وہاں 47 سینٹی گریڈ کی گرمی میں بھی کیمپ میں بجلی نہیں ہوتی، مچھروں کی بہتات ہوتی،کھانا بھی ٹھیک نہیں ملتا تھا۔
ٹیم کے ساتھ ریل کے سفر کے دوران ہم باتھ روموں کے پاس جاکر سوتے تھے ۔ان حالات میں ہم نے باکسنگ کھیلی ۔جنون کی حد تک شوق تھا ، یہ سب پرانی محنت اور جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ آج اس مقام تک پہنچا۔ اگر آپ محنت کریں گے اللہ پر سو فیصد یقین کریں گے تو آپ کے راستے بنتے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ مقامی سطح کے مقابلوں میں ہمارے ساتھ بے ایمانی کی جاتی تھی ، جیتے ہوئے مقابلے میں
نتائج بدل کر ہمیں ہرایا جاتا۔ جنہوں نے ہمارے ساتھ دھوکہ دہی کی، میں ان کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمیں ذہنی طور پر مزید مضبوط کیا۔ ان کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہم مزید محنت کرتے اور اپنی خامیوںکو دور کرکے دوبارہ میدان میں اترتے، اس طرح ہم مزید مضبوط بنتے گئے وہ کہتے ہیں کہ جب میں اپنی ماضی کی طرف دیکھتا ہوں تو یہ چیزیں مجھے حوصلہ دیتی ہے کہ میں کرسکتا ہوں اور میں کرونگا۔ میں اسی لئے سخت محنت کرتا ہوں اور میں اپنے آپ کو دوبارہ ورلڈ چمپئن دیکھنا چاہتا ہوں۔