لندن (این این آئی) پاکستان کرکٹ ٹیم انگلینڈ میں جاری ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں کوالیفائی نہیں کر سکی جس کی سب سے بڑی وجہ رن ریٹ ہے جس کی مخالفت میں نامور سابق کھلاڑی میدان میں آگئے۔پاکستان ٹیم نے ورلڈکپ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ایونٹ میں 5 میچز بھی جیتے لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے رن ریٹ کے اصول نے قومی ٹیم کو سیمی فائنل میں پہنچنے سے روک دیا۔
پاکستانی ٹیم ایونٹ میں اپنے ابتدائی 5 میچوں میں سے صرف ایک میچ میں کامیابی حاصل کر سکی جبکہ اسے 3 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ایک میچ بارش کی نذر ہوگیا تھا جبکہ اپنے بقیہ 4 میچوں میں قومی ٹیم نے مسلسل فتوحات سمیٹیں۔اپنے آخری گروپ میچ میں قومی ٹیم نے بنگلہ دیش کو 94 رنز کے مارجن سے شکست دے کر گروپ اسٹیج میں نیوزی لینڈ کی طرح 11 پوائنٹس تو حاصل کر لیے لیکن کیویز کے مقابلے میں رن ریٹ خراب ہونے کی وجہ سے قومی ٹیم سیمی فائنل میں جگہ بنانے میں ناکام رہی۔اس قانون نے نہ صرف پاکستانی ٹیم کے مداحوں بلکہ سابق کرکٹرز کو بھی مایوس کیا جنہوں نے اس کا اعتراف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر کیا۔انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مائیکل وان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر نیٹ رن ریٹ کے قانون کو کچرا قرار دے دیا۔انہوں نے تجویز دی کہ آئندہ ورلڈکپ میں ٹیموں کے ناک آؤٹ مرحلے میں پہنچنے کا فیصلہ پہلے ان کے گروپ اسٹیج کے مقابلے، پھر ڈک ورتھ لوئس اور پھر رن ریٹ پر کیا جانا چاہیے۔ویسٹ انڈیز کے سابق کرکٹ لیجنڈ مائیکل ہولڈنگ نے کہا تھا کہ میری خواہش تھی کہ اگر پاکستانی ٹیم بنگلہ دیش کو شکست دے تو وہی سیمی فائنل کھیلے۔انہوں نے کہا تھا کہ نیوزی لینڈ اور پاکستان کے پوائنٹس برابر ہیں چونکہ پاکستان نے نیوزی لینڈ کو گروپ اسٹیج میں شکست دی تھی اس لیے اسے سیمی فائنل میں ہونا چاہیے تھا۔اسی طرح جنوبی افریقہ کے سابق کپتان گریم اسمتھ نے بھی رن ریٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مجھے رن ریٹ سے نفرت ہے۔
کرکٹ ایکسپرٹ ایلن والکنز نے نیٹ رن ریٹ کو غیر منصفانہ قرار دیا۔سابق بھارتی کرکٹر سنجے منجریکر نے پاکستان ٹیم کی سیمی فائنل میں نہ پہنچنے پر مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس ٹیم نے اپنی صلاحیت سے زیادہ اچھی کارکردی دکھائی۔سابق ٹیسٹ کرکٹر رمیز راجہ نے کہا کہ پاکستان جیت کے ساتھ اس ورلڈکپ سے رخصت ہورہا ہے، لیکن اس نے آج نیٹ رن ریٹ اور کسی دیگر نظام کے رائج ہونے کی بحث کا آغاز بھی کردیا ہے۔