لاہور(آئی این پی)بین الاقوامی کرکٹ کو خیرباد کہنے والے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق کا کہنا ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے باوجود مستقبل میں کسی نہ کسی صورت میں کرکٹ سے اپنا تعلق برقرار رکھیں گے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اس کھیل سے اپنا تعلق ختم کر سکیں۔اپنے ایک انٹرویو میں مصباح الحق نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ خود کو پرسکون محسوس کر رہے ہیں۔مصباح الحق کے مطابق ویسٹ انڈیز میں
ٹیسٹ سیریز جیتنے پر جس طرح میرے کریئر کا اختتام ہوا ہے اس کے بعد میں بڑی حد تک مطمئن ہوں اور خود کو بہت پرسکون محسوس کر رہا ہوں۔ اگرچہ فوری طور پر میں بہت بڑی تبدیلی محسوس نہیں کر رہا ہوں لیکن کرکٹ کھیلنے کے دوران ٹریننگ اور پریکٹس کا جو دباؤ ہر وقت موجود رہتا تھا وہ اب نہیں ہے۔ اب فیملی کو زیادہ وقت دے سکتا ہوں۔مصباح الحق کا کہنا ہے کہ جو کام ساری زندگی کیا ہو اس سے دور ہونا ممکن نہیں ہے۔کرکٹ سے مجھے جنون کی حد تک پیار ہے۔ کرکٹ خون کی طرح میری رگوں میں ہے، لہٰذا یہ تو کسی نہ کسی صورت میں چلتی ہی رہے گی۔ میرا ارادہ ہے کہ پاکستان سپر لیگ تک کھیلوں، اس کے بعد کھیلنا چھوڑ دوں گا۔ پھر سوچوں گا کہ میرا تجربہ کس طرح ملک کے کام آ سکتا ہے۔ چاہے پاکستان کرکٹ بورڈ میں آؤں یا نہیں لیکن کوشش یہی ہوگی کہ ضلع ریجن یا ڈپارٹمنٹ، کہیں بھی کرکٹ کی بہتری کے لیے کام کر کے مجھے خوشی ہوگی۔مصباح الحق کا کہنا ہے کہ اگر وہ آسٹریلوی دورے میں کامیاب ہوجاتے تب بھی ویسٹ انڈیز میں ان کی سیریز آخری ہوتی۔’میں نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ بہت پہلے ہی کر لیا تھا۔ میں انگلینڈ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں کھیلی گئی سیریز کے بعد ریٹائر ہونا چاہتا تھا لیکن کہا گیا کہ انگلینڈ کے اگلے دورے میں تجربہ کار کھلاڑیوں کی ضرورت ہوگی لہذٰا فیصلہ واپس لیا۔
پھر میں نے دیکھا کہ آسٹریلیا نیوزی لینڈ کے بعد فوری طور پر ویسٹ انڈیز کا دورہ ہے جس پر میں نے اس دورے تک کھیلنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ پہلی بار ویسٹ انڈیز میں ٹیسٹ سیریز جیتنے کی خواہش بھی میرے دل میں تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر آسٹریلیا میں کامیاب ہو جاتا تو کھیلتا رہتا۔مصباح الحق کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ ٹیسٹ میچز جیتنے کے باوجود ان پر بہت زیادہ تنقید کی گئی جس کی کوئی خاص وجہ انہیں سمجھ میں نہیں آتی لیکن انہوں نے اس کا جواب ہمیشہ اپنی کارکردگی سے دینے کی کوشش کی۔تنقید تعمیری ہونی چاہیے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جو مزاج بن گیا ہے اس میں لوگوں کی بے عزتی کی جاتی ہے، انہیں ذلیل کیا جاتا ہے۔ ہمارے چینلز کو اس سے بچنا چاہیے اور اخلاقیات کی حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔مصباح الحق کہتے ہیں کہ ان کا کھیلنے کا انداز ہمیشہ مار دھاڑ والا رہا لیکن پاکستانی ٹیم کو مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے اسے تبدیل کرنا پڑا۔میری کرکٹ کی بنیاد ٹینس اور ٹیپ بال رہی ہے جس میں چوکے چھکوں کی ہی بات ہوتی تھی اور گیند روکنے کا کوئی تصور نہ تھا۔
فرسٹ کلاس کرکٹ میں آنے کے بعد خود کو لمبی کرکٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا لیکن جب پاکستانی ٹیم میں چوتھے پانچویں نمبر پر کھیلنا شروع کیا اور ابتدائی دو تین وکٹیں جلد گرتے دیکھیں تو پھر حالات کے مطابق بیٹنگ کرنی پڑی لیکن صرف مجھ پر سست بیٹنگ کا الزام عائد کرنا کسی طور مناسب نہیں۔مصباح الحق تینوں فارمیٹس میں ایک ہی کپتان کے حق میں ہیں لیکن ساتھ ہی انہیں اظہر علی کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر بھی افسوس ہے۔دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی تینوں فارمیٹس میں ایک ہی کپتان کا تجربہ کامیاب ثابت ہوسکتا ہے لیکن اس کا انحصار کپتان کی اپنی صلاحیت اور اہلیت پر ہے۔ اگر وہ پرفارمر ہے اور اسے کپتانی کا آئیڈیا ہے تو اس کا فائدہ ٹیم کو ہوگا کیونکہ وہ واحد کپتان ہوگا
جسے اپنی منصوبہ بندی میں سلیکٹرز اور ٹیم منیجمنٹ کے ساتھ مسئلہ نہیں ہوگا۔جہاں تک اظہر علی کا تعلق ہے اس کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا مجھے افسوس ہے۔ ہم لوگ ہر بات کا ملبہ کپتان پر گرا دیتے ہیں۔ اظہر علی پر میڈیا نے بہت زیادہ تنقید کی۔ کرکٹ بورڈ کی جانب سے بھی سپورٹ انیس بیس ہوئی اسی لیے انھوں نے ٹیسٹ کی نائب کپتانی بھی چھوڑ دی۔ ان کا یہ فیصلہ درست تھا۔ بحیثیت بیٹسمین ان کی کارکردگی بہت اچھی ہے اور پاکستان کے لیے ان کے رنز بہت قیمتی ہیں۔