جن کو پاک ایم ایم اے فائٹ کلب نے بہتر مستقبل کی امید دی ہے۔ وہ دن بھر ایک مقامی ریستوران میں ویٹر کا کام کرتے ہیں، لیکن شام کو وہ صرف اپنے مارشل آرٹس کے ہنر سے پہچانے جاتے ہیں اور چیمپئین ہیں۔بیشتر مقامی ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد اب وہ بین الاقوامی سطح پرخود کو منوانے کے لیے کوشاں ہیں۔اویس کا کہنا ہے کہ جب وہ یہاں آئے تھے تو ان کے پاس باکسنگ کے دستانے خریدنے تک کے پیسے نہیں تھے، لیکن ان کا ہنر دیکھ کر فائٹ کلب کے منتظمین نے ان کی تربیت اور ساز و سامان کی ذمہ داری اپنے ذمے لے لی اور آج وہ اس کھیل میں ایک ابھرتا ہوا ستارہ ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’یہ وہ واحد جگہ ہے جہاں مجھے اپنی غربت کا احساس نہیں ہوتا۔ یہاں ویٹر اور وزیر کا بیٹا ایک ہی گلاس سے پانی پیتے ہیں۔ لڑائی کے رِنگ میں کوئی امیر اور غریب نہیں، صرف انفرادی مہارت میں ہار یا جیت ہے۔‘
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں