لاہور(نیوز ڈیسک) قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس کا کہنا ہے کہ ماضی میں سینئرز کو ذاتی رنجش نہیں بلکہ ناقص کارکردگی کی وجہ سے ڈراپ کیا، اب بھی ٹیم میں ان کرکٹرز کو جگہ ملے گی جو اچھی کارکردگی دکھانے، اپنا رویہ اور فٹنس بہتر بنانے کی بھوک رکھتے ہوں، ورلڈکپ میں ہماری بیٹنگ، فیلڈنگ اور فٹنس کی قلعی کھل گئی۔
اپنے ایک انٹرویو میں وقار یونس نے کہا کہ میرے بارے میں مغرور یا انتقامی سوچ کا حامل شخص ہونے کا تاثر درست نہیں،ریٹائر ہونے کے بعد کبھی خود کو ایک اسٹار خیال نہیں کیا،آسٹریلیا میں مقیم ہونے کے بعد یہ بخار تو بہت جلد اتر گیا تھا۔ میں اس چیز کا حامی ہوں کہ بطورکوچ آپ کو ان کرکٹرز کی خدمات ہی حاصل نہیں ہونا چاہئیں جو ساتھ کھیل چکے ہوں لیکن میں نے کبھی کسی کو دانستہ ٹیم سے باہر کیا نہ کیریئر ختم کرنے کی کوشش کی،اگر کوئی کھلاڑی اچھا پرفارم کررہا ہے تو اسے ڈراپ کرنا احمقانہ کام ہوگا کیونکہ فتح کسے اچھی نہیں لگتی؟
وقار یونس نے کہا کہ عبدالرزاق، محمد یوسف اور شعیب اختر اپنا بہترین وقت پورا کرچکے تھے، سابق پیسر 3اوورز بھی پوری قوت سے نہیں کر رہے تھے۔ورلڈ کپ 2011 کے سیمی فائنل میں ان کی جگہ وہاب ریاض کو شامل کیا جو بھارت کی 5 وکٹیں لے گئے، شعیب اختر اپنی فٹنس کا خیال رکھتے تو کیریئر طویل کرسکتے تھے،ایک فاسٹ بولر کو اپنا بہت زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے لیکن پیسر اس میں غفلت کا مظاہرہ کرتے رہے۔
وقار یونس نے کہا کہ سابق کرکٹرز کی بے جا تنقید سے پاکستان کرکٹ کاکوئی فائدہ نہیں ہورہا، میں ہمیشہ سے اس بات کا حامی رہاکہ ٹیم میں چند سینئرز کے ساتھ نئے کرکٹرز کو موقع ملتا رہنا چاہیے تاکہ کسی کی ریٹائرمنٹ پر متبادل موجود ہوں، دنیا کی بیشتر ٹیمیں اسی پالیسی پر چلتی ہیں، بھارت کی ایک مثال ہمارے سامنے ہے جو بیٹنگ پاور ہاو¿س بن چکا۔ انھوں نے ورلڈکپ کے بعد کھلاڑیوں کے رویے سے متعلق رپورٹ افشا ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ مناسب نہیں کہ آپ خفیہ معلومات بورڈ کو فراہم کریں اور وہ منظر عام پر آجائیں، البتہ اس میں حقائق ویسے نہیں جس انداز میں انھیں پیش کیا جارہا ہے، میں نے کسی کھلاڑی کیخلاف کبھی سخت الفاظ استعمال نہیں کیے، بڑے محتاط انداز میں اپنی رائے دی لیکن جو کہنا تھاکہہ دیا، بلاشبہ کچھ کھلاڑیوں کو کرکٹ کے تقاضوں سے مزید آگاہی دینے کی ضرورت جس کیلیے انھیں ڈومیسٹک مقابلوں میں بھیجنا ہی مناسب ہوگا، دنیا بھر کی ٹیمیں بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں، ہمیں ان کھلاڑیوں کی ضرورت ہے جن کا رویہ درست ہو۔
ہیڈ کوچ نے کہا کہ ورلڈکپ میں ہماری بیٹنگ، فیلڈنگ اور فٹنس کی قلعی کھل گئی،اب بھی ٹیم میں ان کرکٹرز کو جگہ ملے گی جو اچھی کارکردگی دکھانے، اپنا رویہ اور فٹنس بہتر بنانے کی بھوک رکھتے ہوں۔ انھوں نے کہا کہ میں مغرور یا سخت گیر نہیں لیکن ٹریننگ اور کرکٹ کے حوالے سے کسی قسم کی مصلحت سے کام نہیں لیتا،اگر ایسا کیا جائے تو پاکستان آگے نہیں بڑھے گا، میرا کھلاڑیوں کیساتھ عمومی رویہ دوستانہ ہوتا ہے۔
وقار یونس نے کہا کہ 90کی دہائی میں ملک کو بڑے اسٹارز کی خدمات حاصل تھیں۔ ان میں انا بھی بہت تھی لیکن میدان میں جاتے تو صرف ٹیم کیلیے کھیلتے، ڈیڑھ سال تک میری وسیم اکرم سے بول چال بھی بند رہی لیکن میدان میں ہوتے تو ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے تھے۔انھوں نے کہا کہ مستقبل کیلیے مضبوط ٹیمیں تشکیل دینے کیلیے ہمیں ڈومیسٹک کرکٹ کو فروغ دینے کے ساتھ اپنے نوجوان کرکٹرز کو آسٹریلیا،انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ میں کھیلنے کے زیادہ مواقع فراہم کرنا ہونگے، ملکی سطح کے مقابلوں میں ٹیمیں زیادہ اورکوالٹی کم ہوتی ہے، اس سسٹم سے ابھر کرآنے والے کھلاڑیوں کو مواقع ملیں تو برصغیر جیسی کنڈیشنز میں ان کی کارکردگی اچھی رہتی ہے لیکن دیگر ممالک میں بڑی مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں، بورڈ کو کچھ رقم نوجوانوں کے ان ممالک کے ٹورز پر بھی خرچ کرنی چاہیے۔
وقار یونس اپنے رویے کی صفائیاں پیش کرنے لگے
15
اپریل 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں