لاہور(نیوز ڈیسک)پی سی بی کی جانب سے انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لئے کوششیں یقینی طور پر ہونی چاہئیں تاہم اس کے لئے اپنے نئے کھلاڑیوں پر مشتمل قومی ٹیم کو اپنے سے بہتر ٹیموں کے ساتھ کھلانا چاہئے تاکہ اس سے کھلاڑیوں کو سیکھنے کا موقع مل سکے۔ اپنے سے کمزورٹیموں کے ساتھ کھیلنے سے مقابلہ کی فضا پیدا نہیں ہو گی لہذا کوشش کر کے بہتر ٹیموں کو پاکستان آ کر کھیلنے پر راضی کیا جائے۔
قومی کرکٹ ٹیم کے کوچ اور کھلاڑی بنگلہ دیش ٹیم کو بھی مشکل ٹیم قرار دے رہے ہیں جو ناقابل فہم ہے۔ اول تو بنگلہ دیش پاکستان سے بہتر ٹیم نہیں ہے دوسرا یہ کہ دورہ پر جانے سے پہلے ہی مخالف ٹیم کو مشکل قراردینے سے اپنے کھلاڑیوں میں اعتماد کی کمی کاا ظہار ہو تا ہے۔ ماضی میں معین خان وغیرہ بھی زمبابوے جانے سے پہلے اسے مشکل ٹیم قرار دیتے رہے اور پاکستان وہاں جا کر ایک ٹیسٹ اور ایک ون ڈے میچ بھی ہار گیا تھا۔ میرے خیال میں کھلاڑیوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لئے ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترمقابلہ کی فضا پیدا کرنا ہو گی جس کے لئے ڈومیسٹک سٹرکچر میں تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے لئے مختلف ریجنز میں نان کرکٹرز کو منتخب ہو نے کے بعد خود پی سی بی کا حصہ بننے کے بجائے سابق کرکٹروں کو اپنا نمائندہ بنا کر پی سی بی گورننگ بورڈ میں بھیجا جائے۔
دوسری جانب فرسٹ کلاس کرکٹ میں ریجنل ٹیموں کی تعداد 13 سے کم کر سات کر دی جائے تاکہ خانہ پری کرنے کے بجائے حقیقی طور پر فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کے مستحق کھلاڑی ہی کھیل سکیں جبکہ دیگر کھلاڑیوں کو سات ٹیمیں بنا کر گریڈ ٹو کھلائی جائے۔ فرسٹ کلاس میں راولپنڈی ، اسلام آباد اورآزاد کشمیر پر مشتمل ایک ریجن بنایا جائے۔لاہور اور کراچی ریجن کی ایک ایک ٹیم شامل کی جائے۔یونی و یژن نیوز پاکستان کے مطابق چوتھی ٹیم شمالی پنجاب اور پانچویں ٹیم جنوبی پنجاب کے اضلاع پر مشتمل بنائی جائے۔چھٹی ٹیم اندرون سندھ کے اضلاع اور بلوچستان کے کھلاڑیوں میں سے بنائی جائے جبکہ ساتویں ٹیم صوبہ خیبر پختونخوا کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہو۔ اگر ان سفارشات کو مد نظر رکھتے ہوئے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی جائے تو نہ صرف بہتر مقابلہ کی فضا پیدا ہو گی بلکہ پر اعتماد کھلاڑی بھی سامنے آئیں گے جو اپنے سے کمزور ٹیم کے خلاف دورہ کو کبھی مشکل قرار نہیں دیں گے جبکہ آسٹریلیا کی طرح سخت جان کھلاڑی پیدا ہو نگے۔
پی سی بی کی جانب سے انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لئے کوششیں یقینی طور پر ہونی چاہئیں
14
اپریل 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں