لاہور (نیوز ڈیسک) پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مصباح الحق نے کہا ہے کہ ون ڈے کرکٹر سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ حتمی ہے۔ سکندر بخت خوشی منائیں اور مٹھائیاں بانٹیں، فیصلہ واپس نہیں لوں گا۔ جسے کوئی کام نہیں ملتا وہ ایکسپرٹ بن جاتا ہے، ٹی وی پر بیٹھ کر کسی کی عزت اتارنا اچھی بات نہیں، سری لنکن ٹیم پر حملہ یا انٹرنیشنل کرکٹ میں نے بند نہیں کرائی، میڈیا ہاﺅسز کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے،کچھ کھلاڑیوں نے گھر سے اخلاقیات نہیں سیکھیں۔ان کا کہنا تھا کہ ٹیم کے انتخاب میں کپتان اور کوچ کافیصلہ حتمی ہونا چاہیے۔ یاد رہے اس سے قبل ماہرین بھی سلیکشن معاملات میں مصباح کی بے اختیاری کا تذکرہ کرتے رہے ہیں اور اب اس کا اعتراف انہوں نے خود بھی کر لیا ہے .
تفصیلات کے مطابق میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مصباح الحق کا کہنا تھا کہ اپنی اننگز کھیل چکا ہوں اور اب آرام کرنے کی ضرورت ہے،واپس آنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ کھیلے بعض کھلاڑیوں کا کمنٹری کرتے ہوئے رویہ بڑا منفی ہوتا ہے، لگتا ہے ان تبصرہ کرنے والوں کی اخلاقی تربیت ہی نہیں ہوئی، ٹی وی پر بیٹھ کر کسی کی عزت اتارنا اچھی بات نہیں۔ مصباح نے کہا کہ آپ کرکٹ میں ہار کی ذمہ داری صرف ایک کھلاڑی پر نہیں ڈال سکتے۔ ”غیر ملکی میڈیا اور کرکٹرز اپنی ٹیموں کی تعریف کرتے ہیں جبکہ یہاں ہر کوئی ایک ہی ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔ کچھ بھی ہو جائے اس کی ذمہ داری مصباح پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان تبصرہ کرنے والوں سے پوچھیں کہ 2003ئءاور 2007ءکے ورلڈکپس میں تو میں نہیں کھیل رہا تھا تو اس میں شکست کی وجہ کون بنا؟ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ میں نے ختم نہیں کی ، سری لنکن ٹیم پر میں نے حملہ نہیں کرایا“۔
ٹیم کی کپتانی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی مرضی ہے جسے چاہے کپتان بنا دے البتہ پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ اور فیلڈنگ پر انتہائی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور باقی تمام چیزوں کو بالاتر رکھتے ہوئے اس پر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ مصباح الحق نے کہا کہ پی سی بی نے ہمیشہ ان کو سپورٹ کیا ہے اسی لئے وہ 4 سال تک کپتان رہے ہیں۔ آسٹریلیا کے خلاف میچ میں صہیب کے فیلڈنگ سے انکار کی بات غلط ہے، صہیب مقصود کے ہیلمٹ کی کہانی بلاوجہ بنائی گئی۔
ٹیم سلیکشن سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سلیکشن کا اختیار سلیکشن کمیٹی کے پاس ہے اور اس کے فیصلے پر کپتان کا اختلاف نہیں بنتا کیونکہ یہ پالیسی کا معاملہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سلیکشن کے معاملے پر کپتان سے محض رائے لینے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے حالانکہ کوچ اور کپتان دونوں کا فیصلہ حتمی ہونا چاہیے۔شاہد آفریدی کی پرفارمنس سے متعلق سوال کے جواب میں مصباح الحق کا کہنا تھا کہ شاہد آفریدی ایک جینئین آل راﺅنڈر ہیں اور ان کا کوئی متبادل بھی نہیں تھا جبکہ چھٹے ساتویں نمبر پر آفریدی کو کھلانا مجبوری تھی۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارےبیٹسمین بڑی اننگز نہیں کھیل سکے جس کے باعث کوارٹر فائنل میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، بیٹنگ لائن اپ میں میچورٹی نہیں آئی، اسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹورنامنٹ میں ٹیم کے ہر کھلاڑی نے بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کی تاہم باﺅلرز نے کام کر دکھایا اور اسی لئے کوارٹر فائنل کھیلنے میں کامیاب ہوئے۔ سرفراز احمد کو شروع کے میچز میں نہ کھلانے سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سرفراز کے ساتھ ہمارا کوئی مسئلہ نہیں تھا، وہ شروع میں ایڈجسٹ نہیں کر پا رہے تھے اس لئے انہیں نہیں کھلایا گیا حالانکہ دبئی میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف سیریز میں سرفراز کو بطور اوپنر پرومٹ کرنے والے وہ اور وقار بھائی ہی تھے۔