سڈنی(نیوز ڈیسک) ورلڈکپ میں نحوست نے وقار یونس کا پیچھا نہ چھوڑا، ان کے لیے حالیہ ایونٹ بھی خوشگوار ثابت نہ ہو سکا، بی بی سی کے مطابق کوچ کو روانگی سے قبل بھی اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ورلڈکپ انھیں کبھی راس نہیں آیا، وہ اسے یادگار بنانے کی شدید خواہش رکھتے تھے لیکن پاکستانی ٹیم کوارٹر فائنل سے آگے نہ بڑھ سکی۔ وقاریونس جب کیریئر کے عروج پر تھے توکمر کی تکلیف کے سبب1992 ورلڈکپ میں شرکت سے محروم ہونا پڑا۔1996 کے ایونٹ میں ان کیلیے ابتدا میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا اور 5میچز میں 11 وکٹیں حاصل کیں، مگر پھر بھارت سے بنگلور میں کوارٹر فائنل ان کیلیے ناخوشگوار ثابت ہوا جس میں وہ اجے جڈیجاکی جارحانہ بیٹنگ کا شکار بنے،جنھوں نے ان کے نویں اوور میں 18اور آخری اوورمیں 22 رنز بنا دیے۔1999 کے ورلڈکپ سے بھی وقاریونس کی خوشگوار یادیں وابستہ نہیں ہیں۔اگرچہ پاکستانی ٹیم فائنل کھیلی لیکن انھیں صرف بنگلہ دیش کیخلاف ایک ہی میچ کھیلنے کا موقع ملاجس میں ٹیم شکست سے دوچار ہوئی، جان بوجھ کر ہارنے کے الزامات کی وجہ سے پی سی بی کو میچ کی تحقیقات کیلیے ’بھنڈاری کمیشن‘ بھی بنانا پڑا تھا، وقار یونس نے9اوورز میں 36 رنز دے کر 2وکٹیں حاصل کیں لیکن اس کے باوجود انھیں اگلے کسی بھی میچ کیلیے ٹیم میں جگہ نہ بنا سکے۔ 2003ورلڈکپ میں وہ ٹیم کے کپتان تھے، ٹیم آسٹریلیا، انگلینڈ اور بھارت جیسی بڑی ٹیموں سے ہار کر گروپ مرحلے سے آگے نہ بڑھ سکی، خود وقاریونس کی بولنگ بھی خاصی مایوس کن رہی،ایونٹ کے ساتھ ہی ان کا بین الاقوامی کیریئر بھی اختتام کو پہنچا۔2006 میں وقار یونس پاکستانی ٹیم کے بولنگ کوچ بنے لیکن2007ورلڈکپ سے قبل عہدے سے استعفی دے دیا۔2011 کے ورلڈکپ میں انھوں نے پاکستان کی کوچنگ کے فرائض نبھائے،ٹیم سیمی فائنل تک پہنچی جہاں اسے بھارت کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس دوران ان کے کپتان شاہدآفریدی سے کشیدہ تعلقات کی خبریں بھی سامنے آئیں، اب 2015میں ٹیم ان کے کوچنگ میں کوارٹر فائنل ہار گئی۔