ایران کے ایک گاؤں میں دو بھائی رہتے تھے۔ دونوں میں بہت زیادہ محبت تھی۔ لوگ ان کی محبت اور اخوت کی مثال دیا کرتے تھے۔ بڑے بھائی کا نام عبداللہ اور چھوٹے کا عبدالرحمن تھا۔ عبداللہ شادی شدہ اور چار بچوں کا باپ تھا، جبکہ عبدالرحمن غیر شادی شدہ تھا۔ دونوں برتن سازی
کا کام کرتے تھے اور اپنے کام میں بہت ماہر تھے۔ وہ سال میں دو مرتبہ اپنے تیار کردہ برتنوں کو بیچنے کے لیے شہر جاتے اور واپسی پر اپنی ضروریات زندگی کی چیزیں خرید لاتے۔ اس کاروبار سے انہیں معقول آمدنی حاصل ہوتی تھی۔حسب معمول دونوں بھائی برتن لے کر شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ کئی دنوں کا سفر تھا۔ ابھی وہ شہر سے ایک دن کے فاصلے پر تھے کہ دوپہر کا وقت ہو گیا۔ انہوں نے ایک سائے دار درخت کے نیچے گدھوں سے سامان اتارا۔ گدھوں کے آگے دانہ ڈالا۔ وضو کرکے نماز ظہر ادا کی اور کھانا کھانے لگے۔کھانے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ انہیں ایک شخص کے چلنے کی آواز سنائی دی۔ انہوں نے دیکھا کہ گرد و غبار میں اٹا ہوا ایک شخص ان کی جانب آ رہا تھا۔ اس شخص نے قریب آ کر کہا ’’اے دوستو! کیا تمہیں کسی ہم سفر کی ضرورت ہے؟‘‘بڑے بھائی نے جواب دیا۔ ’’کیوں نہیں، ہم سفر کی وجہ سے سفر آسان ہو جاتا ہے۔‘‘اجنبی ان کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے میٹھے لہجے سے دونوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ کچھ دیر آرام
کے بعد سفر دوبارہ شروع ہوا۔ دوران سفر اجنبی نے بڑے بھائی کو اکیلے پا کر اس سے حال احوال دریافت کیا اور باتوں باتوں میں پوچھا کہ سامان بیچنے کے بعد کیا تم دونوں برابر تقسیم کرتے ہو۔جواب میں بڑے بھائی نے کہا ’’ہاں! ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔‘‘اجنبی نے کہا ’’دیکھو میاں!
تم بال بچوں والے ہو، تمہارا حق زیادہ بنتا ہے اور محنت میں بھی تم زیادہ شامل ہو۔ چھوٹا تو اکیلا ہے۔ کیا تم نے کبھی اس پہلو سے بھی سوچا ہے؟‘‘اس طرح اجنبی نے بڑے بھائی کے دل میں وسوسہ پیدا کر دیا۔ اس نے دل میں عہد کر لیا کہ اس دفعہ وہ زیادہ حصہ لے گا۔ اجنبی نے اسی طرح
موقع پا کر چھوٹے بھائی سے پوچھا۔ ’’سامان بیچنے کے بعد تم دونوں برابر تقسیم کرتے ہو؟‘‘چھوٹے بھائی نے بھی وہی جواب دیا۔ ’’ہاں! ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔‘‘اجنبی نے کہا ’’میاں! تمہاری ابھی شادی ہونی ہے، گھر بننا ہے اور آمدنی کی تقسیم میں تم گھاٹے میں رہتے ہو، کام کاج بھی
تم زیادہ کرتے ہو، بڑا بھائی تو اپنے بچوں میں مصروف رہتا ہے، اس طرح تمہارا گھر کیسے بنے گا، شادی کے اخراجات کہاں سے آئیں گے۔‘‘چھوٹا بھائی بھی وسوسوں کا شکار ہو گیا اور کھنچا کھنچا رہنے لگا۔ اجنبی سائے کی طرح کبھی چھوٹے بھائی کے کان بھرتا تو کبھی بڑے بھائی
کے کان بھرتا۔شہر پہنچنے کے بعد سامان بہت اچھے داموں فروخت ہو گیا۔ ضروری خریداری کرنے کے بعد دونوں بھائی جامع مسجد میں جمعتہ المبارک کی نماز پڑھنے گئے۔ امام صاحب نے خطبہ کے دوران سورۃ الناس کی تشریح فرمائی کہ شیطان کس طرح انسانی ذہنوں میں
وسوسے پیدا کرتا ہے اور فرمایا کہ اگر کوئی بھی آپ سے کوئی ایسی بات کرے، جس سے آپس میں پھوٹ پڑے۔ بے اتفاقی پیدا ہو، یا حرص جاگ اٹھے تو آپ لوگ فوراً لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم پڑھیں۔اس طرح وہ شیطانی وسوسہ فوراً غائب ہو جائے گا۔ دونوں بھائیوں کی سمجھ میں
بات آ گئی۔ مسجد کے باہر انہوں نے اپنے دلوں کو ٹٹولا اور ایک دوسرے کے بارے میں غلط وسوسوں پر فوراً لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم پڑھا۔ اجنبی فوراً غائب ہوگیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو سب کچھ بتا دیا اور ایک دوسرے سے معافی مانگی۔ انہوں نے ایک دوسرے کو
دل سے معاف کر دیا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ امام صاحب کو ان کی رہنمائی کا ذریعہ بنایا۔ اس کے بعد وہ امام صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کا بھی دل سے شکریہ ادا کیا، کیونکہ انہی کی بدولت وہ شیطان کی مکروہ چال سے بچ گئے تھے۔