اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی حامد میر نے اپنے آج کے کالم میں انکشافات کئے ہیں کہ کافی دن سے ایک نوجوان صحافی بار بار واٹس ایپ پر مجھے پیغامات بھیج رہا تھا کہ اس نے ایک یوٹیوب چینل شروع کیا ہے اور اسے مجھ سے انٹرویو کے لئے ٹائم چاہئے۔ میں نے
اسے جواب میں کہا کہ میرے بہت سے جاننے والوں نے اپنے یو ٹیوب چینل شروع کر دیے ہیں اور وہ مجھ سے وقت مانگتے ہیں میں نے آپ کو وقت دیا تو دوسرے ناراض ہو جائیں گے، اس لئے میری طرف سے معذرت قبول کریں۔ اس نوجوان صحافی نے میری معذرت قبول کرنے کی بجائے اصرار بڑھا دیا۔ میں نے اسے جواب دینا چھوڑ دیا تو اس نے فتوی صادر کیا کہ آپ بڑے مغرور ہیں، اپنے آپ کو پتا نہیں کیا سمجھتے ہیں؟ میں خاموش رہا تو اگلے روز اس نے معذرت کا پیغام بھیجا اور کہا کہ ٹھیک ہے آپ انٹرویو کا وقت نہ دیں، ایک چھوٹی سی ملاقات کا وقت دے دیں۔ میں نے اس نوجوان کو اگلی شام دفتر بلا لیا۔ آتے ہی اس نے پوچھا کہ میرے پاس کتنا وقت ہے؟ میں نے کہا آپ سمجھدار ہیں۔ شام کو ہمارا کام کا وقت ہوتا ہے، آپ نے جو بھی ضروری بات کرنی ہے وہ جلدی سے کر لیں۔ اس نوجوان نے سب سے پہلے تو یہ بتایا کہ وہ پچھلے چند ماہ سے بیروزگار ہے اور اپنی روزی روٹی کے لئے ایک یو ٹیوب چینل کو کامیاب بنانے کی کوشش کر
رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے اسے معلوم ہوا کہ حکومت نے کچھ یو ٹیوب چینلز کو اشتہار دینے کا فیصلہ کیا ہے تو اس نے بھی متعلقہ لوگوں سے رابطہ کیا۔ پہلے تو پوچھا گیا کہ آپ کے فالوورز کتنے ہیں؟ پھر کہا گیا کہ آپ کے فالوورز اتنے زیادہ نہیں ہیں، آپ فالوورز
بڑھائیں پھر ہمارے پاس آئیں۔ جب اس نوجوان کے فالوورز چار پانچ ہزار ہو گئے تو وہ دوبارہ متعلقہ لوگوں کے پاس گیا اور اشتہار مانگا۔ انہوں نے کہا کہ اشتہار تو نہیں ہے لیکن ہم آپ کی کچھ مدد کر سکتے ہیں، آپ کو بھی ہماری مدد کرنا ہو گی۔ نوجوان نے پوچھا میں آپ کی کیا مدد کروں؟
انہوں نے کہا کہ آپ کو اپنے یوٹیوب چینل سے کچھ سیاستدانوں کے خلاف پروگرام کرنے ہوں گے۔ اس نوجوان یوٹیوبر نے روزی کی خاطر یہ کام شروع کر دیا۔ پھر ایک دن اس نوجوان سے کہا گیا کہ اگر تم کچھ صحافیوں کے خلاف بھی پروگرام کر دو تو تمہیں بہت فائدہ ہو گا۔
نوجوان نے پوچھا کہ کون سے صحافی؟ اس نوجوان کے ہاتھ میں پانچ صحافیوں کی ایک فہرست تھمائی گئی اور ساتھ میں تحریری گائیڈ لائن بھی پکڑا دی گئی۔ نوجوان نے فہرست میں میرا نام دیکھا تو اپنے مدد گار سے کہا کہ حامد میر پر پرانے الزامات بار بار لگانے سے بہتر ہے
کہ جن الزامات کی فہرست آپ نے مجھے دی ہے، میں ان سے تمام الزامات کا جواب لے لیتا ہوں۔ مدد گار کو یہ آئیڈیا پسند آیا، اس نے شرط عائد کی کہ اس انٹرویو کی کانٹ چھانٹ وہ خود کریں گے۔ پھر جب نوجوان نے انٹرویو کے لئے وقت مانگنا شروع کیا تو میں نے اس کی حوصلہ
افزائی نہیں کی۔ اب وہ میرے سامنے بیٹھا جھکی جھکی نظروں کے ساتھ کہہ رہا تھا کہ پچھلے دنوں لاہور کے ایک صحافی نے آپ کے حق میں یو ٹیوب پر پروگرام کیا تو اس پر بہت لائیکس آئے اور اس کے فالوورز بھی بڑھ گئے لیکن مجھے تو روزی روٹی بھی کمانی ہے، مجھے
کہا جا رہا ہے کہ حامد میر کے خلاف پروگرام کر دو تو بڑا فائدہ ہو گا۔ نوجوان نے کہا تین سال پہلے ایک مشکل میں آپ نے میری مدد کی تھی، میں آپ کا وہ احسان نہیں بھولا۔ آج مجھ پر ایک احسان اور کر دیں۔ میں نے کہا ہاں بتا کیا کرنا ہے؟ کہنے لگا کہ مجھے اجازت دے دیں کہ میں
آپ پر وہ تمام الزامات لگا دوں جن کی فہرست مجھے دی گئی ہے۔ میں حیرانی سے اس کی طرف دیکھنے لگا تو کہنے لگا کہ ایک صابر انسان سے پوچھ کر اس کے خلاف کلمہ ناحق کہنا ہے۔ میری ہنسی چھوٹ گئی۔ وہ بھی ہنسنے لگا۔ میں نے اسے اجازت دے دی۔ وہ مسکراتا ہوا واپس چلا گیا اور میں ان صاحبانِ اختیار کو داد دینے لگا جنہوں نے نوجوانوں کی بے روز گاری دور کرنے کے کیسے انوکھے طریقے دریافت کئے ہیں؟