آج ہم آپ کا تعارف ایسی شخصیّت سے کروارہےہیں جسکے حالاتِ زند گی پہ تحیّر و اسرار کے دبیز پر دے پڑے ہوئے ہیں ۔ اس شخصیّت پر یہ شعر حرف بہ حرف پورا اتر تا نظر آتا ہے۔ آج میں اپنے طلبہ کا تعارف ایسی شخصیّت سے کروارہا ہوں جسکے حالاتِ زند گی پہ تحیّر و اسرار گئے دنوں کا سراغ لے کر کہاں سے آیا کدھر گیا وه عجیب مانوس اجنبی تھا
مجھے تو حیران کر گیا وه مضمون کی سرخی سے آپ شخصیّت کا نام تو جان ہی چکے ہیں ، جی ہاں ! سڈنی کاٹن ہی اسکا نام ہے۔ آپ یقینا سوچ رہے ہونگے کہ یہ کیسا نام ہے؟ پاکستان میں تو ایسے نام نہیں ہوتے ! جی ہاں ! آپ کا یہ اندازه بھی درست ہے! یہ شخص پاکستان کا نہیں بلکہ آسٹریلیا کا باشنده تھا۔ اب آپ حیران ہورہے ہونگے کہ بھلا ایک آسٹریلوی شخص کا پاکستان کی تاریخ سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ تو میں آپ کویقین دلاتا ہوں کہ اس شخص کا پاکستانی تاریخ کے ابتدائی دور سے نہ صرف تعلق ہے بلکہ تشکیل پاکستان میں بھی اسکا حصہ رہا ہے۔ اب ذرا آپ اندازه لگائیے کہ اس شخص کا پیشہ کیا ہوگا؟ کیا کہا؟ سیاستدان ! جی نہیں ! اس شخص کا سیاست سے دُور کا بھی واسطہ نہیں تھا ۔ ایک کوشش اور کردیکھئیے، نہیں نہیں! وه سفار تکار بھی نہیں تھا ۔ سڈنی کاٹن 1947ع میں پاکستان آیا تو ضرور تھا، بلکہ ایک سے زائد بار آیاتھا مگر پاکستان میں اسکا قیام کبھی بھی چند گھنٹے سے زیاده نہیں رہا۔ دراصل خود میرے لیے بھی سڈنی کاٹن کے پیشے کا تعّین کرنا بہت مشُکل ہے کیونکہ بہت سے لوگ اسُے پائلٹ بتاتے ہیں ، بہت سے لوگوں کے نزدیک وه ایک برطانوی جاسوس تھا کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وه اسلحے کا اسمگلر تھا ۔ اور کچھ لوگوں کے نزدےک وه اےک شاطر چور تھا ۔بہر حال اگر وه جاسوس ، اسمگلرےا چور تھا بھی تو اس نے یہ تمام کارنامے اپنے ہوائی جہاز کی مدد سے سر انجام دیئے تھے ،
یعنی بنیادی طور پر وه ایک ہوا باز یعنی پائلٹ تھا۔ آپ یقینا اب بھی حیران ہو نگے کہ میں آخر آپ کا تعارف ایک جاسوس نمااسمگلر اور چور نما ہواباز سے کیوں کروارہاہوناور شاید آپ یہ سوچ رہے ہونگے کہ“ گُنوں کے پورے”اس شخص نے یقینا پاکستان کوکوئی بہت بڑا نقصان پہنچایا ہوگا ۔جی نہیں! ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔قصہ دراصل اسکے بالکل برعکس ہے۔
درا صل اس شخص نے اپنی جان پر کھیل کر ایک ایسا دلیرانہ فعل انجام دیا کہ اگر وه نہ ہوتا “میرے منہ مینخاک” پاکستان کا وجود اپنے ابتدائی دور میں ہی خطرے میں پڑ جاتا ۔اب تمہید بہت طویل ہو چلی ہے آئیے میں آپ کا براه راست تعارف سڈنی کاٹن سے کرواہی دیتا ہوں۔ سڈنی کاٹن سنہ 1894ء میں آسٹریلیا کے علاقے کو ئنز لینڈ میں پیدا ہوا۔ اسے شُروع ہی سے ایجاد ات میں دلچسپی تھی۔ اس نے اپنے لڑکپن میں ہی ایک کار ڈیزائن کی تھی جو خاصی کا میاب ثابت ہوئی۔
اپنی جوانی کی ابتداءمیں کاٹن ایک موجد اور انجینیئر کے روپ میں سامنے آتا ہے۔اسکی مزید ایجادات ہوابازی کے مخصوص لباس اور ہوائی جہاز وں میں استعمال ہونے والے مختلف النوع اسلحے پر مشتمل ہیں ۔ 1915ء میں کاٹن برطانیہ پہنچا جہاں اس نے برطانوی بحریہ میں بحیثیت ہوا باز شمولیت حاصل کی۔آپ حیران ہونگے کہ بحریہ میں ہوا باز کہاں سے آگئے۔وه تو فضائیہ میں ہوتے ہیں مگر یاد رہے کہ اُس دور میں برطانوی بحریہ دنیا بھر میں سب سے زیاده مضبوط سمجھی جاتی تھی اور اس مضبوط بحریہ کے بل بوتے پر ہی برطا نیہ آدھی دنیا پر حکمرانی کر رہاتھا۔
برطا نیہ کی حکومت میں آسٹریلیا، انڈیا اور کینیڈا جیسے ممالک بھی شامل تھے ۔ اس مضبوط بحر یہ میں بہت سے بہر حال 16 سالہ نوجوان پائلٹ کا ٹن نے بر طانوی بحریہ میں شمولیت اختیار کی تواسے صرف 5” فائٹر”اور“بومبر” ہوائی جہازبھی شامل ہوتے تھے۔ گھنٹے جہاز اڑانے کے تجربے کے بعد جنگ عظیم اول کی بھٹی میں جھونک دیا گیا مگریہ دلیر نوجوان اس بھٹی سے کندن بن کر نکلا جنگ عظیم اوّ ل کے خاتمے پر سڈنی کاٹن کینیڈا چلا گیا جہاں اس نے طیّارے کی مدد سے فضائی سروے کا پیشہ اختیار کیا۔
1938 میں برطانیہ واپس آکر اس نے اپنی ذاتی کمپنی“ایرو فلمز” کے نام سے قائم کی جس کا بنیادی کام تو فضائی سروے کرنا تھا مگر ساتھ ہی ساتھ کاٹن نے برطانوی سیکرٹ سروس 16-M میں بھی شمولیت ختیار کرلی اور جرمنی اور اٹلی کے خلاف جاسوسی کے محّیرالعقول کارنامے سر انجام دیے۔ سڈنی کاٹن کا شمار طیارے کے زریعے تصویر کشی کے موجدوں مےں ہوتا ہے جنگ عظیم دوئم کے دوران اسکی تصویریں ہزار ہا لوگوں کی زندگیاں محفوظ کرنے کا سبب بنیں ۔یہ کارنامے کاٹن نے لاک ہیڈ 12 طیارے کے زریعے انجام دیئے۔ جس کی تصویر سامنے دی گئی ہے۔
1939 میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو کاٹن نے برطانوی فضائیہ میں شمولیت اختیار کرلی جہاں اس نے اسکواڈرن لیڈر اور ونگ کمانڈر کے فرائض بحسن و خوبی انجام دئیے۔ برطانوی وزیراعظم چر چل بھی کاٹن کی بہادری اور اسکی خدمات کا معترف تھا۔ آئیے وقت کی کتاب کے مزےد ورق پلٹتے ہیں 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت پاکستان ” کے نام سے اُبھری ۔ ےه ثمر تھا مسلمانان ہند کی طویل جدوجہد اور بے مثل قربانیوں کا ۔جہاں مسلمان پاکستان کی تشکیل پر سجدئہ شکرادا کر رہے تھے، وہاں ہندوؤں کے سینے پر سانپ لوٹ رہے تھے کہ تمامتر کوششوں کے باوجود وه قیام پاکستان کو روک نہ سکے مگر انہوننے اب بھی ہار نہ مانی تھی ۔
اب انکی کوشش تھی کہ پاکستان کواتنے مسائل میں الجھادیا جائے کہ یہ نو زائیده مملکت پنپ نہ سکے۔پاکستان کو تباه کرنے کے لئیے سب سے مہلک حملہ پاکستان کی معیشت پر کیا گیا ۔ متحده ہند وستان کے خزانے سے جو حصہ ہمیں “معاہده تقسیم ” کے تحت ملنا تھا وه ہندوؤں نے روک لیا تاکہ پاکستان ادائیگیاں نہ کر سکے اور دیوا لیہ (Bankrupt (ہو جائے۔ شاید ایساہو ہی جاتا اگر اس موقعے پر نظام حیدر آباد پاکستان کی مدد کو نہ آتے۔ حیدرآباد دکّن متحده ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست تھی۔
خوشحالی اور فارغ البالی کا یہ عالم تھا کہ وہاں کے حکمران میر عثمان علی(جنہیں نظام دکن کہا جاتا تھا) کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا تھا۔ نظام دکن اس آڑے وقت میں پاکستان کے کام آئے اور کثیر مقدار میں سونا پاکستان کو تحفتا پیش کیا۔ مگر مسئلہ تھا اس سونے کو پاکستان پہنچانے کا ۔ حیدر آباد دکن اگرچہ آزاد مملکت تھی مگر چاروں طرف سے ہندوستان کی سرزمین سے گھری ہوئی تھی ہندوستان نے اس سونے کی ترسیل کو رکو انے کے لیے نہ صرف یہ کہ زمینی ناکہ بند ی کر دی بلکہ اپنی فضائیہ کو بھی متحرک کرد ےا تاکہ ہوائی جہاز کے ذریعے بھی یہ سونا پاکستان نہ لے جا ےا جاسکے۔ س موقع پر نظام حیدرآباد نے سڈنی کاٹن کی مدد حاصل کی ۔
یہ سڈنی کاٹن ہی تھا جس نے تن تنہا ہندستانی فوج اور فضائیہ کی آنکھونمیں دھول جھونکتے ہوئے یہ تمام سونا بحفاظت کراچی پہنچادیا جو اُس وقت پاکستان کا دارالحکومت تھا ۔ یقینا سڈنی کاٹن نے اس کام کا بھرپور معاوضہ وصول کےاہوگا لیکن یہ جان جوکھم کا کام تھا جسے کوئی بے حد دلیر بلکہ سر پھر اپائلٹ ہی سر انجام دے سکتا ہے ۔اس سلسلے میں کاٹن کو کراچی اور حید رآباد دکن درمیان کئی پھیرے لگانے پڑے جو وه رات کی تاریکی میں لگایا کرتا تھا ۔
واضح رہے کہ اسے کسی قسم کی Navigation کی سہولت بھی حاصل نہیں تھی بلکہ ہندستانی فوج اور فضائیہ تو اس کی جان کی دشمن کی تھی ۔کاٹن اپنے سفر کے لیے ہمیشہ نیا راستہ چُنتا تھا اور اس چالاکی سے اپنے راستے بدلتاتھا کہ ہندستانی فوج باوجود لاکھ کوشش کے کبھی اُس کی گرد کو بھی نہ پاسکی۔اُس سونے کے حصول کی بدولت پاکستان اپنے معاشی نظام کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہو سکا اور قائد اعظم نے کچھ ہی عرصے بعد اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کیا ۔
ہم پاکستانیوں کو نظام دکن اور سڈنی کاٹن کے ساتھ ساتھ حیدرآباد دکن کے مسلمان لیڈر قاسم رضوی کا بھی شکرگزار ہوناچاہیے کیونکہ انہوننے ہی وه سیاسی فضاءبنائی تھی جس کی وجہ سے نظام دکن پاکستان کو سونا دینے پر راضی ہوئے تھے ۔ پاکستان کو تو سونا مل گیا مگر نظام دکن اور سڈنی کاٹن کی کہانی کا ایک باب ابھی باقی ہے لہو کی پیاسی ہوگئی تھی ۔ہندستانی حکومت کی سر توڑ کوشش کی وجہ سے برطانیہ کی سول ایوی ۔پاکستان کی مدد کرنے کی پاداش میں ہندستان کی متعصب حکومت نظام میں دکن اور سڈنی کاٹن کے ایشن کی تنظیم نے ہوا بازی کے اصولوں کو توڑنے ،
بغیر اجازت ہندستان کی فضائی حدود مےں پرواز کرنے ◌ٰ ور رات کے وقت بغیر Navigation کی مدد کے جہاز اُڑانے کے جرم میں سڈنی کاٹن کا ہوا بازی کا لائسنس منسوخ کر دیا ۔لےکن چونکہ سڈنی کاٹن جنگ عظیم دوئم کا ہیرو تھا اورچرچل اس سے بہت متاثر تھا اس لیے تین ماه بعد ہی اس کا لائسنس بحال کر دیا گیا۔ سڈنی کاٹن کا تو ہندوستانی حکومت کچھ نہ بگاڑسکی مگر نظام دکن کو انکے جرم کی کڑی سزا دی گئی ۔جس دن قائد اعظم کی آنکھیں بند ہوئیں
اسکے اگلے ہی دن ہندستانی فوج نے موقع کا فائده اٹھاتے ہوئے حیدرآباد دکن پر تین اطراف سے فوج کشی کردی۔نظام پر یہ الزام لگایا گیا کہ وه ہندستان پر حملہ کرنے کی سازش کررہے ہیں اور انہوں نے اس کے لیے نہ صرف یہ کہ بہت بڑی فوج تیار کرلی ہے بلکہ بھاری مقدار میں اسلحہ بھی حاصل کرلیا ہے اوریہ مہلک اسلحہ “مشہور اسمگلر ” سڈنی کاٹن کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے۔ حیدرآباد دکّن کی فوج ہندستان کا مقابلہ نہ کر سکی اور اس نے شکست تسلیم کرلی ۔
نظام نے فوری طور پر ہندستان چھوڑکرمصر جانے کا پروگرام بنایا جہاں انکے دوست شاه فاروق حکمران تھے۔ اس سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ نظام کے قیمتی سامان کے ساتھ ساتھ برطانوی پاؤنڈز سے بھرے ہوئے بہت سے کارٹن (صندوق)بھی جہاز میں رکھوادئیے گئے ،نظام دکّن کی ر وانگی کے وقت کا تعین بھی ہوگیا تھا مگر کسی غدّار کی مخبری پر ہندوستانی فوج نے اس وقت سے پہلے ہی نظام دکن کو گرفتار کرلیا اور ساتھ ساتھ فوج کے چند دستے اس لاک ہیڈ 12 طیارے کو قبضے میں لینے اور پائلٹ کو گرفتار کرنے کے لیے روانہ کر دیے گئے
مگر وه چالاک پائلٹ ایک بار پھر ہندستانی فوج کی آنکھوں میں دھول جھونک کر فرار ہوگیا ۔ لاک ہیڈ 12 طیارے،اس میں موجود قیمتی اشیا ، نوٹوں سے بھرے ہوئے کارٹنز اور خود پائلٹ کا پھر پتہ نہ چل سکا۔کیا آپ اندازه کر سکتے ہیں کہ وه پائلٹ کون تھا؟ واضح رہے کہ یہ میرا آخری سوال ہے!!!
(پاکستان کی تاریخ کا ایک گمشده ورق ۔ سڈنی کاٹن از:۔ پروفیسر سہیل فاروقی)