اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف کالم نگار یاسر پیرزادہ اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ مسلم دنیا اس وقت تین بڑے مسائل سے دوچار ہے، پہلا، اگر نیل پالش لگی ہو تو کیا وضو ہو جاتا ہے، دوسرا، اگر موبائل فون میں فحش مواد ہو تو کیا اسے جیب میں رکھ کر نماز ہو جاتی ہے، اور تیسرا، کیا روزے کی حالت میں دانت برش کئے جا سکتے ہیں! آپ میں سے جن لوگوں کا خیال ہے کہ میں نے مسلم امہ
پر طنز کرنے کی کوشش کی ہے اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ کسی بھی اخبار کا ہفتہ وار مذہبی صفحہ نکال کر پڑھ لیں، کوئی مذہبی ویب سائٹ ڈھونڈ لیں یا کسی عالم دین سے سوالات کی کوئی ویڈیو دیکھ لیں، اگر آپ کو اسی قسم کے سوالات کی بھرمار نہ ملے تو پیسے واپس۔ ٹویٹر پر ایک مذہبی عالم سے کسی نے پوچھا کہ کیا میں روزے کی حالت میں ٹوتھ برش کر سکتا ہوں تو اس نے جواب دیا کہ ہاں آپ ٹوتھ برش استعمال کر سکتے ہیں بلکہ آپ کو ہمیشہ ٹوتھ برش استعمال کرنا چاہیے اور خدا کا واسطہ ہے کہ ٹوتھ برش کیا کرو! نیل پالش اور وضو کا بھی یہی قصہ ہے، اس بابت سوالات پڑھ کے یوں لگتا ہے جیسے پوری امت مسلمہ کی عورتوں کا اِس سے بڑا اور کوئی مسئلہ نہیں کہ نیل پالش بھی لگ جائے اور وضو بھی ہو جائے، البتہ یہ کسی عورت کا مسئلہ نہیں کہ جب وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ کسی ریستوران میں جائے تو اُس گیارہ برس کی ’’ملازمہ‘‘ کو کیا کھانا کھلائے جو ساتھ والی میز پر اُس عورت کے آٹھ سال کے دھینگڑے کو گود میں بٹھا کر برگر کھلانے کی ڈیوٹی سر انجام دیتی ہے۔ نماز پڑھتے وقت ہمیں موبائل فون میں محفوظ فحش مواد کا خیال تو (غالباً) شرمندہ کرتا ہے مگر صراط المستقیم والی آیات پڑھتے ہوئے یہ سوچ نہیں آتی کہ اپنی یتیم بھتیجی کی جس جائیداد پر میں قبضہ کئے بیٹھا ہوں قیامت کے روز اُس کے متعلق اللہ کے حبیب ﷺ کو کیا منہ دکھاؤں گا۔
ہمیں یہ سوال بھی بہت پریشان کرتا ہے کہ نماز کے وقت ہاتھ کہاں باندھنے چاہئیں مگر اِس بات کی ہمیں کوئی پریشانی نہیں کہ جس دفتر میں کام کرنے کی ہم تنخواہ لیتے ہیں وہ تنخواہ ہم نے حلال کی یا نہیں۔ ہم یہ بات بھی اکثر عالموں سے پوچھتے ہیں کہ اگر عورت کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے دی جائیں تو کیا ایک طلاق گنی جائے گی یا تین مگر یہ سوال کوئی نہیں کرتا کہ عورت کو گھر سے
نکال باہر کرنے کے بعد اُسے نصف جائیداد کیوں نہیں مل سکتی جیسے کہ اکثر دنیا میں قانوناً رائج ہے! اور حج کے دوران ہمیں اس بات کا بھی بہت دھیان رہتا ہے کہ کہیں مناسک حج میں کوتاہی نہ ہو جائے، شیطان کو زوردار پتھر مارے جائیں، بال پورے کٹوائے جائیں، احرام ٹھیک سے باندھا جائے مگر اِس بات کی کسی کو فکر نہیں کہ اپنے اندر کا شیطان کیسے مارا جائے، اپنے ملک واپس
آ کر گندگی نہ پھیلائی جائے اور اپنی فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کے ساتھ جانوروں کا سا برتاؤ نہ کیا جائے۔ دراصل یہ مسلم دنیا کا قصہ نہیں، یہ انسان کی فطرت ہے، جو بات ہمیں آسان لگتی ہے اُس پر خوشی خوشی عمل کرتے ہیں، ایسے ہمیں تقویت ملتی ہے، گردن فخر سے تنی رہتی ہے، ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آتا ہے۔ اس انسانی رویے کو اگر مشکل انگریزی کے الفاظ استعمال کرکے کسی دقیق مقالے کی شکل میں شائع کیا جائے تو کچھ کچھ Parkinson’s law of trivialityجیسی شکل سامنے آئے گی۔