ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

وہ وقت جب قائداعظم ہندوئوں کی سازش کا شکار ہو کر پاکستان کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئے، سابق وزیراعظم پاکستان کے تہلکہ خیز انکشافات

datetime 2  ‬‮نومبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم پاکستان ملک فیروز خان نون اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ مسٹر جناح سے میری پہلی ملاقات مسلم لیگ کے اس اجلاس میں ہوئی جو ان کی زیر صدارت دہلی میں ہوا تھا۔مجھے یاد ہے کہ اس موقع پر کل پندرہ یا بیس ارکان حاضر تھے۔ ہم نے اس سے پہلے سرفضل حسین کی رہنمائی اور آغا خان کی صدارت میں مسلم ارکان شامل تھے۔

انگریز فطری طورپر اس تنظیم کو بڑی اہمیت دینے لگے تھے تقسیم ملک کا مسئلہ جس زمانہ میں سامنے آیا، اس وقت تک سرفضل حسین کا انتقال ہوچکا تھا۔ مسٹر جناح اس زمانہ میں تمام مسلمانوں کے مسلمہ لیڈر تھے اور ان کی جماعت مسلم لیگ ہندوستان کے بعض اکثریت کے صوبوں میں برسرحکومت تھی۔ قائداعظم ایک نہایت بلند کردار اور دیانت و امانت کی بے بدل صفات کے مالک تھے۔ اعلیٰ عہدوں کا لالچ دے کر انہیں خرید لینا ناممکنات میں سے تھا اور یہ بات ہندوؤں اور انگریزوں کو بھی معلوم تھی۔قائداعظم، اپنی ذاتی حیثیت میں، نہایت مہربان ار خلیق تھے۔ وہ اصول کے معاملہ میں سخت تھے۔ ان کے خیالات غیر معمولی حد تک واضح اور دوٹوک ہوتے تھے۔ لباس نہایت پاکیزہ اور بے داغ پہنتے تھے۔ گفتگو میں سنجیدگی، استدلال اور رواداری ہوتی تھی۔ جن دنوں آئینی بات چیت جاری تھی اور پانچ یا سات صوبوں کے وفاق کی تجویز پیش ہوئی تھی، انہوں نے ایک بار مجھ سے کہا’’ میں نے غیر منقسم ہندوستان کا منصوبہ منظور کرلیا ہے۔ جس میں مرکز کے پاس صرف چار امور کے محکمے ہوں گے‘‘میں نے برجستہ کہا ’’آپ پاکستان ہار گئے۔‘‘ اس کے بعد میں نے اس بیان کی وضاحت کی ’’ فوج جس فرقہ کے اختیار میں ہوگی وہی ملک پر حکومت کرے گا ،چونکہ دفاع کا محکمہ مرکز کے پاس ہوگا اور مرکزی پارلیمنٹ میں لامحالہ

ہندوؤں کی بالادستی ہوگی لہٰذا یہ منصوبہ مسلمانوں کے لئے موت کا پروانہ ثابت ہوگا‘‘ قائداعظم یہ سن کر گہری سوچ میں مبتلا ہوگئے۔چند دنوں بعد انہوں نے مجھ سے کہ ہندو، اب مرکز کے لئے زائد امور کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جن میں صنعت اور تجارت کے محکمے خاص طور پر شامل ہیں۔ میں نے ان سے کہا ’’اب آپ کے لئے موقع ہے۔ خدا کے لئے اس بکھیڑے سے باہر نکلیں

اور تقسیم کے مطالبہ پر ڈٹ جائیں‘‘ بالآخر ہمیں آزادی حاصل ہوگئی کیونکہ انہوں نے ہندوؤں کے آگے پسپائی کرنے سے انکار کردیا تھا۔ مسٹر جناح نے ایک موقع پر مجھ سے پوچھا کہ دارالحکومت کہاں بنایا جائے؟ میں نے راولپنڈی کا نام لیا۔ انہوں نے کہا کہ میں دارالحکومت وہیں قائم کرتا لیکن یہ شہر کشمیر کے علاقے سے بہت قریب ہے۔ اس وقت نئے دارالحکومت کی تعمیر کے لئے

مناسب سرمایہ بھی نہیں تھا۔ لہٰذا کراچی کا انتخاب کرنا

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…