گوادر کو پاکستان کا حصہ بنانے والے سابق وزیراعظم پاکستان ملک فیروز خان نون اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ مسٹر جناح سے میری پہلی ملاقات مسلم لیگ کے اس اجلاس میں ہوئی جو ان کی زیر صدارت دہلی میں ہوا تھا۔مجھے یاد ہے کہ اس موقع پر کل پندرہ یا بیس ارکان حاضر تھے۔ ہم نے اس سے پہلے سرفضل حسین کی رہنمائی اور آغا خان کی صدارت میں مسلم ارکان شامل تھے۔
انگریز فطری طورپر اس تنظیم کو بڑی اہمیت دینے لگے تھے تقسیم ملک کا مسئلہ جس زمانہ میں سامنے آیا، اس وقت تک سرفضل حسین کا انتقال ہوچکا تھا۔ مسٹر جناح اس زمانہ میں تمام مسلمانوں کے مسلمہ لیڈر تھے اور ان کی جماعت مسلم لیگ ہندوستان کے بعض اکثریت کے صوبوں میں برسرحکومت تھی۔ قائداعظم ایک نہایت بلند کردار اور دیانت و امانت کی بے بدل صفات کے مالک تھے۔ اعلیٰ عہدوں کا لالچ دے کر انہیں خرید لینا ناممکنات میں سے تھا اور یہ بات ہندوؤں اور انگریزوں کو بھی معلوم تھی۔قائداعظم، اپنی ذاتی حیثیت میں، نہایت مہربان ار خلیق تھے۔ وہ اصول کے معاملہ میں سخت تھے۔ ان کے خیالات غیر معمولی حد تک واضح اور دوٹوک ہوتے تھے۔ لباس نہایت پاکیزہ اور بے داغ پہنتے تھے۔ گفتگو میں سنجیدگی، استدلال اور رواداری ہوتی تھی۔ جن دنوں آئینی بات چیت جاری تھی اور پانچ یا سات صوبوں کے وفاق کی تجویز پیش ہوئی تھی، انہوں نے ایک بار مجھ سے کہا’’ میں نے غیر منقسم ہندوستان کا منصوبہ منظور کرلیا ہے۔ جس میں مرکز کے پاس صرف چار امور کے محکمے ہوں گے‘‘میں نے برجستہ کہا ’’آپ پاکستان ہار گئے۔‘‘ اس کے بعد میں نے اس بیان کی وضاحت کی ’’ فوج جس فرقہ کے اختیار میں ہوگی وہی ملک پر حکومت کرے گا ،چونکہ دفاع کا محکمہ مرکز کے پاس ہوگا اور مرکزی پارلیمنٹ میں لامحالہ
ہندوؤں کی بالادستی ہوگی لہٰذا یہ منصوبہ مسلمانوں کے لئے موت کا پروانہ ثابت ہوگا‘‘ قائداعظم یہ سن کر گہری سوچ میں مبتلا ہوگئے۔چند دنوں بعد انہوں نے مجھ سے کہ ہندو، اب مرکز کے لئے زائد امور کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جن میں صنعت اور تجارت کے محکمے خاص طور پر شامل ہیں۔ میں نے ان سے کہا ’’اب آپ کے لئے موقع ہے۔ خدا کے لئے اس بکھیڑے سے باہر نکلیں
اور تقسیم کے مطالبہ پر ڈٹ جائیں‘‘ بالآخر ہمیں آزادی حاصل ہوگئی کیونکہ انہوں نے ہندوؤں کے آگے پسپائی کرنے سے انکار کردیا تھا۔ مسٹر جناح نے ایک موقع پر مجھ سے پوچھا کہ دارالحکومت کہاں بنایا جائے؟ میں نے راولپنڈی کا نام لیا۔ انہوں نے کہا کہ میں دارالحکومت وہیں قائم کرتا لیکن یہ شہر کشمیر کے علاقے سے بہت قریب ہے۔ اس وقت نئے دارالحکومت کی تعمیر کے لئے
مناسب سرمایہ بھی نہیں تھا۔ لہٰذا کراچی کا انتخاب کرنا