امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؓ خلافت کا کام کرکے اپنے گھر آئے اور آرام کرنے کے لیے لیٹے ہی تھے کہ بیوی نے غمگین لہجے میں کہا، امیر المومنین اگلے ہفتے عید آ رہی ہے بچہ نئی پوشاک کے لیے بہت بے چین ہے ابھی روتے ہوئے سویا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے سر جھکا کر فر مایا تمہیں تو معلوم ہے کہ مجھے تو صرف سو درہم ماہوار ملتے ہیں جس میں گھر کا خرچہ بڑی مشکل سے پورا ہوتا ہے۔ بیوی وہ تو میں سمجھتی ہوں آپ بیت المال سے قرض لے لیں،
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فر مایا بیت المال پر تو صرف غریبوں، یتیموں اور فقیروں کا حق ہے، میں تو صرف اس کا امین ہوں۔ بیوی بولی بے شک میرے سرتاج آپ کی بات سچ ہے مگر بچہ تو ناسمجھ ہے اس کے آنسو نہیں دیکھے جاتے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز بولے اگر تمہارے پاس کوئی چیز ہے اسے فروخت کر دو، بچے کی خوشی پوری ہو جائے گی۔ بیوی بولی امیر المومنین میرے تمام زیورات آپ نے بیت المال میں جمع کرا دیے ہیں بلکہ میرا قیمتی ہار بھی جو میرے والد نے مجھے تحفہ دیا تھا آپ نے وہ بھی جمع کر وا دیا اب تو میرے پاس آپ کی محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ امیر المومنین نے سر جھکا لیا، بڑی دیر تک سوچتے رہے۔ اپنے ماضی میں میں جھانکنے لگے وہ بچپن، جوانی، خوش پوشی نفاست جو لباس ایک بار پہنا دوبارہ پہننے کا موقعہ نہ ملا، جس راستے سے گزرتے خوشبوؤں سے معطر ہو جاتا، یہ سوچتے سوچتے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ بیوی نے اپنے ہر دل عزیز شوہر کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو کہنے لگی مجھے معاف کر دیں، میری وجہ سے آپ پریشان ہو گئے۔ فرمایا کوئی بات نہیں پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے بیت المال کے نگران کے لیے ایک خط لکھ کر اپنے ملازم کو دیا اور فرمایا ابھی جاؤ یہ خط نگران کو دے کر آؤ، اس میں لکھا تھا مجھے ایک ماہ کی تنخواہ پیشگی بھیج دو، ملازم نے جوابی خط لا کر امیرالمومنین کو دیا۔
جس میں لکھا تھا، اے خلیفۃ المسلمین آپ کے حکم کی تعمیل سر آنکھوں پر لیکن کیا آپ کو معلوم ہے آپ ایک ماہ تک زندہ رہ سکتے ہیں، جب یہ آپ کو معلوم نہیں تو پھر غریبوں کے مال کی حق تلفی کیوں پیشگی اپنی گردن پہ رکھتے ہیں، آپ نے جواب پڑھا تو رونے لگے، فرمایا نگران نے مجھے ہلاکت سے بچا لیا۔ اگلے ہفتے دمشق کے لوگوں نے دیکھا امراء کے بچے نئے حسین کپڑے پہن کر عید گاہ جا رہے تھے مگر امیرالمومنین کے بچے پرانے دھلے ہوئے کپڑوں میں ملبوس اپنے والد کا ہاتھ پکڑے عید گاہ جا رہے تھے، بچوں کے چہرے چاند کی طرح چمک رہے تھے کیونکہ آج ان کی نظر فانی دنیا کی وقتی خوشی پر نہیں بلکہ جنت کی ابدی تمنا کے احساس نے انہیں سر شار کر دیا تھا۔ سبحان اللہ۔ یہ ہیں، ہمارے اسلاف جن کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے،اللہ پاک ہمیں بھی ایسی زندگی نصیب فرمائے۔