عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان اکتوبر سنہ 1973ء میں لڑی جانے والی خونریز جنگ کے کئی اہم راز منظر عام پر آئے ہیں۔ ایک اسرائیلی اخبار کے مطابق 37 سال قبل لڑی جانے والی اس جنگ میں اسرائیل عرب فوجوں کے ہاتھوں شکست کے دھانے پر پہنچ گیا تھا۔اسرائیلی اخبار”یدیعوت احرونوت” کے حوالے سے العربیہ ٹی وی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عرب اور اسرائیل کے درمیان
جنگ شروع ہونے کے ایک روز بعد اس وقت کی اسرائیلی وزیر اعظم گولڈا مائیر نےاپنی کابینہ کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ جنگی صورت حال کا جائزہ لینے اور آئندہ کی حکمت عملی کے لیےتمام وزیروں اور حکومتی مشیروں کو بھی بلایا گیا۔اجلاس کے دوران وزیر دفاع موشے دایان نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ نہر سویز کے کنارے اور اس کے آس پاس موجود اسرائیلی فوجی کیمپ مصر اور شام کے مشترکہ حملوں کی زد میں ہیں اور اسرائیل انہیں نہیں بچا سکتا۔ انہوں نے وزیر اعظم کو تجویز دی کہ وہ ان فوجی کیمپوں کی فکر کرنا چھوڑ دیں کیونکہ وہ اب اسرائیل کے ہاتھ سے جا چکے ہیں۔ ان فوجی مراکزمیں موجود فوجیوں کو ہدایت کر دی جائے کہ ان میں سے اگر کوئی بھاگ کر جان بچا سکتا ہے تو ایسا کر لے یا عرب فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈال دے۔موشے دایان نے مزید کہا کہ نہر سویز کے قریب فوجی کیمپوں تک ہماری فوجی کمک کی رسائی ممکن نہیں رہی، اس لیے وہاں پر موجود زخمی فوجیوں اور ملہوکین کی لاشیں نکالنا ناممکن ہے۔زخمیوں کو بے یار چھوڑنے کی تجویز:رپورٹ کے مطابق سات اکتوبر سنہ 1973ء کو مصر اور شام کی فوجوں نے نہرسویز کی طرف سے اسرائیل کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ راستے میں اسرائیلی فوجوں نے سخت مزاحمت کی تاہم فوجی کیمپ ایک ایک کر کے متحدہ عرب فوجوں کے قبضے میں آتے چلے گئے۔اس موقع پر اسرائیلی وزیر
دفاع موشے دایان نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ نہر سویز کے کیمپوں میں عرب فوجوں کے قبضے میں پھنسے زندہ فوجیوں، زخمیوں اور ہلاک شدگان کی فکر نہ کریں کیونکہ وہ کیمپ اب ہماری پہنچ سے دور ہو چکے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری فوج کے لیے اس وقت صرف یہی راستہ مناسب ہے کہ ہم نہر سویز سے 30 کلو میٹر پیچھے ہٹ آئیں۔ دشمن کے قبضے میں گھرے فوجیوں کو پیغام بھیجا جائے کہ وہ اپنی جانیں بچائیں،
کوئی بھاگ سکتا ہے تو بھاگنے کی کوشش کرے اور جو ایسا نہیں کر سکتا وہ عرب فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈال کر جان بچائے۔عرب جنگی صلاحیت کا غلط اندازہ:رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اجلاس کے دوران اسرائیلی وزیر دفاع نے اپنی فوجوں کی شکست اور عربوں کی برتری کا برملا اعتراف کیا تھا۔ بریفنگ کے دوران انہوں نے حکومت کو بتایا کہ عرب ممالک کی جنگی قوت اور صلاحیت کے بارے میں ہمارے تمام اندازے غلط ثابت
ہوئے ہیں۔ ہم ان کی جنگی صلاحیت کو ماضی میں اسرائیل کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں کے تناظر میں دیکھتے رہے، لیکن اب ہمیں اندازہ ہوا کہ ہماری تیاری اور منصوبہ بندی غلط تھی۔عربوں کی متحدہ فوج فضائی اور زمینی حملوں میں اسرائیلی فوج کے لیے نہایت تباہ کن ثابت ہورہی ہے۔ ہم نے عرب فوجوں کے مقابلے لیے اپنی فوج کو ایک ہی وقت میں 1000 توپوں کے دھانے کھولنے کی ہدایت کی تھی لیکن دشمن کی فضائیہ نے
ہمارے ٹینک، توپیں اور ہوائی جہاز ہر چیز کو بری طرح تباہ کر دیا ہے۔ اب ایسے لگ رہا ہے کہ گویا اگلے چند روز میں عرب فوجیں اسرائیل میں داخل ہو جائیں گی۔عرب، اسرائیل پر قبضہ چاہتے ہیں:موشے دایان نے کہا کہ جس طریقے سے عربوں نےجنگ کی تیاری کر کے اسرائیل کی طرف پیش قدمی شروع کی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرب جنگ ختم نہیں کریں گے۔ ان کا اصل ہدف اسرائیل پر قبضہ ہے اور وہ اپنے اس
مشن میں ہرقیمت پر کامیابی حاصل کرنا چاہتےہیں۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ عرب جس طرح کی قوت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، اسرائیل کے لیے انہیں روکنا بھی مشکل ہے۔ عرب، اسرائیل کے ساتھ کسی سیز فائر پر بھی متفق نہیں ہوں گے اور ہمارے درمیان کوئی عارضی جنگ بندی کا معاہدہ ہو بھی گیا توبھی عرب جلد ہی اسرائیل پر دوبارہ تیاری کر کے حملہ آور ہوں گے کیونکہ وہ فلسطین سے
یہودیوں کے وجود کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔مصر اور شام کے مشترکہ حملوں کے ساتھ ساتھ دریائے اردن کے مغربی کنارے میں اردن کی طرف سے اسرائیلی علاقوں پرقبضے کا خدشہ ہے کیونکہ اردنی فوجیں بھی قدم بقدم مغربی کنارے کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں۔رپورٹ کے مطابق جنگ میں خود کو مشکل حالات میں دیکھ کر اسرائیل نے امریکا سے مدد کا مطالبہ کیا، تاہم فوری طور پر کسی قسم کی مدد کی یقین دہانی حاصل نہ ہونے
کے باعث اسرائیل کو سخت مایوسی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ تاہم بعد ازاں موشے ڈایان نے امریکا سے 300 ٹینک خرید کرنے کا ایک معاہدہ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تھی لیکن اتنے دنوں میں اسرئیل کے کئی سو ٹینک تباہ کر دیئے گئے تھے۔جنگ بندی کی تجاویز:اسرائیلی اخبارنے سابق صہیونی وزیر دفاع موشے دایان کے حوالے سے بتایا ہے کہ عرب ـ اسرائیل جنگ شروع ہونے کے پہلے ہنگامی اجلاس میں حکومت کو جنگ
روکنے کے لیے کئی قسم کی تجاویز دی گئیں۔ دایان نے کہا کہ چونکہ نہر سویز کے آس پاس موجودہ ہماری فوجیں اب ہمارے رابطے میں نہیں رہیں اور دشمن کی فوجیں لگاتار آگے بڑھ رہی ہیں۔ ایسے میں ہمیں عرب فوجوں کو اسرائیل کے اندر داخل ہونے سے روکنے کے لیے مختلف نوعیت کے عسکری وسائل کا استعمال کرنا ہو گا۔ گو کہ انہوں نے ان منفرد جنگی وسائل کی وضاحت نہیں کی تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ جنگ روکنے اور
شکست سے بچنے کے لیے اسرائیل وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے کے استعمال پر بھی غور کر رہا تھا۔اجلاس کے دوران اس وقت کے آرمی چیف ڈیوڈ الیعاذر جنگ کا پانسہ پلٹنے کے لیے اپنی تجاویز لےکر پہنچے۔ انہوں نے مختصر بریفنگ میں کہا کہ “ہم غلطیاں بہت کر چکے، اب غلطی کی گنجائش باقی نہیں رہی، ہمیں اپنی سپاہ کو اس طرح منظم کرنا ہو گا کہ وہ دشمن کی فوج کی پیش قدمی کو روک سکے”۔ اس کے لیے
انہوں نے تین تجاویز پیش کیں۔اول یہ کہ فوج کے اہم ترین کمانڈوز کے دو بریگیڈ پر مشتمل ایک “اینٹی وار” یونٹ تشکیل دیا جائے جو اسرائیل کے اندر رہ کرملک کا دفاع کرے۔ تاہم انہوں نے اس یونٹ پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے دوسری یہ تجویز دی کہ تمام فوجیوں کو مصر سے ملحقہ صحرائے سینا پر لگا دیا جائے تاہم یہ اسرائیل کے لیے بہت مہنگا سودا ہو گا اور اس پر بھاری لاگت آئے گی۔تیسرا “آپشن” یہ ہے
کہ فوجوں کی قوت کو مجتمع کر کے نہر سویز کی طرف سے پیش قدمی کرنے والی عرب فوجوں کےمقابلے پر لگا دیا جائے۔ اچانک دشمن کی افواج پر کئی اطراف سے حملے کر کے ان کی پیش قدمی روکی جائے اور پھر بتدریج اپنی فوج کی پیش شروع کی جائے۔یہ آخری تجویز فوج میں شامل کئی دیگر جرنیلوں نے بھی پیش کی۔ لیکن اگر اسرائیلی فوج اس کے باوجود عربوں سے شکست کھا گئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
عراقی اور الجزائری فوجیں صرف چند روز کے اندر تل ابیب تک پہنچ سکتی ہیں۔خیال رہےکہ ماضی میں سنہ 1973ء کی عرب ۔ اسرائیل جنگ کے بارے میں اس نوعیت کے انکشافات نہیں ہوئے۔ عموما جو تفصیلات منظرعام پر آئیں ان سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل میں شکست کھانےکا کوئی امکان نہیں تھا۔ عربوں نے اگرچہ ماضی کی اسرائیل سے جنگوں کی نسبت زیادہ جرات اور طاقت کا مظاہرہ کیا تاہم فتح یا شکست کا کوئی
معیار وہ پھر بھی قائم نہ کرسکیں تھیں۔ اسرائیلی حکومت اور فوج کے اندر کس قسم کی بے چینی پائی جارہی تھی اس کے بارے میں کسی موقر عبرانی اخبار نے پہلی دفعہ یہ تمام تفصیلات جاری کی ہیں۔