پیر‬‮ ، 04 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

چور اور سنار

datetime 30  ستمبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پرانے زمانے کی بات ہے ایک سنار جو کہ بمبئی کا رہنے والا تھا لاہور اایا اس کے پاس کافی موتی تھے اس نے وہ موتی ایک مجلس میں کھولے اور سب کو دکھانے لگا۔ اس نے ایک موتی جیت میں سے نکالا اور لوگوں کو دکھاتے ہوئے بولا کہ یہ موت شب افروز ہے(یعنی رات کو چمکتا ہے)جب اس نے سامان سمیٹا اور اٹھ کر جانے لگا تو ایک چور جو اسی مجلس میں بیٹھا

پوچھنے لگا جناب کہاں کے ارادے ہیں۔ سنار نے جواب دیا بمبئی جا رہا ہوں۔ چور نے کہا اتفاق دیکھیں نہ میرا بھی وہیں کا پروگرا ہے چلیں مل کر چلتے ہیں۔ ابھی سنار بھی سمجھ گیا کہ یہ میرا ہمسفر نہیں ہے۔ یہ اس موتی کے پیچھے ہے لیکن سمجھدار تھا کہنے لگا آئو چلتے ہیں۔ دونوں مل کر چل پڑے سارا دن سفر کیا اور شام کو جب سونے لگے تو چور نے اپنی واسکٹ وغیرہ جو قمیض کے اوپر پہنی ہوئی تھی اتار کر علیحدہ ایک جگہ پہ لٹکا دی ۔ سنار نے وہ موتی اپنی جیب سے نکالا اور نظر بچا کے وہ قیمتی موتی اس کی جیب میں رکھ دیا اور خود بے فکر ہو کر سو گیا ۔ ابھی چور رات کو اٹھا اور اس کی جیب اس کا سامان سب دیکھنے لگا لیکن کہیں بھی موتی نہ ملا آخر وہ سو گیا۔ صبح اٹھتے ہی سنار نے نظر بچا کر وہ قیمتی موتی اس کی جیب سے نکال کر اپنے پاس رکھ لیا جب چور اٹھا تو اس نے ناشتہ کرتے ہوئے سنار سے باتوں باتوں میں پوچھا کہ وہ تمہارے پاس وہ جو قیمتی موتی تھا وہ کہاں ہے رات کو چمک بھی نہیں رہا تھا۔ سنار نے موتی جیب سے نکال کر دکھایا اور کہا کہ یہ تو میرے پاس ہے ، چور حیران ہو گیا کہ میں نے اس کی پوری جیب چھان ماری لیکن مجھے یہ نہ ملا لیکن اس نے ابھی جیب سے نکال کر دکھا دیا خیر آج رات نکال لوں گا۔ سنار نے اگلی رات پھر وہی عمل کیا ادھر چور بھی ساری رات ڈھونڈتا رہا لیکن کچھ نہ ملا ،

صبح کو پھر وہی ماجرا کے موتی سنار کی جیب سے نکل آتا ، یہی کام تین سے چار دن چلتا رہا۔ آخر چور نے ایک صبح سنار سے کہا کہ میں آپ کا ہم راہی نہیں تھا میں بس آپ کے ساتھ اس موتی کی خاطر تھا آج میں آپ کو استاد مانتا ہوں۔ آپ مجھے بتائیں کہ آپ یہ موتی رکھتے کہاں تھے رات کو اس نے کہا میاں تو اوروں کی جیبیں ٹٹولتا رہا کبھی اپنی جیب میں بھی ہاتھ ڈالا ہوتا۔

آج ہماری مثال اس چور کی سی ہے جو لوگوں کے عیب ڈھونڈتا پھر رہا ہو اور کبھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا تک نہیں۔ ہماری یہ عادت بن چکی ہے کہ ہم ہمیشہ دوسروں کی غلطیاں ہی ڈھونڈتے رہتے ہیں، کبھی اپنے آپ کو ہیں ٹٹولتے ، کبھی بھی اپنے آپ پہ نظر نہیں دوڑائی۔

موضوعات:



کالم



آرٹ آف لیونگ


’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…

فیک نیوز انڈسٹری

یہ جون 2023ء کی بات ہے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ فرانس…

دس پندرہ منٹ چاہییں

سلطان زید بن النہیان یو اے ای کے حکمران تھے‘…

عقل کا پردہ

روئیداد خان پاکستان کے ٹاپ بیوروکریٹ تھے‘ مردان…

وہ دس دن

وہ ایک تبدیل شدہ انسان تھا‘ میں اس سے پندرہ سال…

ڈنگ ٹپائو

بارش ہوئی اور بارش کے تیسرے دن امیر تیمور کے ذاتی…